نیازی قبیلے کا تاریخی جائزہ لیں تو ان کا ابتدائی مسکن افغانستان کی سنگلاخ چٹانیں ھیں جہاں یہ ابتدائی طور پر تین پیشوں سے منسلک رھے ۔
1-بھیڑ بکریاں پالنا(گلہ بانی)
2۔ تجارت
3۔ سپہ گری
کچھ مورخ یہ سمجھتے ھیں کہ نیازی قبیلے نے سپہ گری کا پیشہ ہندوستان پر بہلول لودھی کے برسر اقتدار آنے کے بعد اپنایا اور شیرشاہ سوری کے دور میں بہادری کے جوہر دکھاتے ھوئے بام عروج پر پہنچے مگر ایسا نہیں ھے۔
لودھی سلطنت سے بہت پہلے 1398ء میں تیمورلنگ ہندوستان پر حملہ آور ھوا دہلی کی اینٹ سے اینٹ بجائی اور تغلق خاندان کی سلطنت کا خاتمہ کیا ۔تیمورلنگ کی فوج جن میں 12 افغان قبیلوں کے دستے شامل تھے ان میں ایک دستہ نیازی قبیلے کا بھی تھا جس کی قیادت ملک حبیب نیازی کر رھے تھے ۔
بات کہیں اور نکل گئی آج کی تحریر کا موضوع نیازی قبیلے کا پیشہ پاوندے (گلہ بانی) سے کروندے ( کھیتی باڑی) تک ھے ۔
کروندے کا تاریخی پس منظر اور اس سے متعلق معلومات میں کوئی غلطی یا کوتاہی نظر آئے تو میری اصلاح کیجئے گا۔
ان معلومات کا منبع تاریخی کتب ، روایات اور کہیں کہیں میری ذاتی perception بھی ھے اس لئے آپ کھل کر اختلاف رائے کرسکتے ھو ۔
تاریخی حوالواں سے پتا چلتا ھے کہ سہرنگ خیل نیازی 1526ء میں بابر کے ھندوستان پر حملے کے وقت سے لکی مروت کے علاقے میں موجود تھے اور انہوں نے جس طرح بابر کے لشکر پر شب خون مارا ان سے پتا چلتا ھے کہ یہ نیازی صرف پاوندے ہی نہیں جنگجو رہزن بھی تھے جنہوں نے قریبی پہاڑوں میں سنکر بنا رکھے تھے۔
بعد ازاں اس علاقے میں مدے سہرنگ جو بابر کے پوتے مغل اعظم شہنشاہ اکبر کا ہمعصر تھا اس کے زمانے تک نیازی کروندے سے نابلد تھے ۔
سرسبز اوربلند و بالا کوہسار اور اس کے دامن میں موجود چراہگاھیں نیازیوں کے مسکن رھے اور ان چراھگاہوں پر تسلط و تصرف کی وجہ سے ان کی دیگر قبائل کے ساتھ کشمکش اور جنگیں تاریخ کا حصہ ھیں
کروندے کا پیشہ نیازیوں نے اس وقت اپنایا جب وہ لکی مروت سے بے دخل ھوکر دریائے سندھ کے اس پار آئے جہاں آج سہرنگ خیل نیازیوں کی مختلف شاخیں آباد ھیں ۔
سلطان خیل قبیلے نے بھی موجودہ موسٰی خیل کے مقام پر خیموں اور چھپر کوٹوں کی صورت میں ڈیرے ڈالے جہاں پہلے ھی سے لدھو خیل اور باہی قبیلہ موجود تھا ۔
چونکہ دیگر نیازی شاخوں کی طرح سلطان خیل قبیلہ بھی اپنے سابقہ پیشہ پاوندہ گیری (گلہ بانی) سے وابستہ تھا اس لئے یہاں بھی ایک ایسی جگہ کا انتخاب کیا جو ناقابل کاشت اور غیر آباد مقام تھا۔
چھپر کوٹ نما (جھونپڑی نما) عارضی گھروں میں رہائش پذیر اس قبیلے سے مقامی گھکڑ اور اعوانوں نے کوئی تغرض نہیں رکھا اور نہ ھی انہیں اپنے لئے کوئی خطرہ جانا۔
سلطان خیل قبیلے نے کچھ عرصے بعد اپنے تربور موسٰی خیل قبیلے کو بھی اپنے ھاں بلوایا اور دونوں قبیلے ساتھ ساتھ رہنے لگے ۔
یہاں رہتے ھوئے سلطان خیل قبیلے نے گھکڑوں ، اعوانوں اور ان کے مزارعوں کو کاشتکاری کرتے ھوئے اور مختلف فصلیں اگاتے ھوئے دیکھا گو کہ سلطان خیل قبیلہ اس پیشے سے عملی طور پر وابستہ نہیں تھا مگر ان گھکڑوں اور اعوانوں سے یہ ہنر یا کسب سیکھ گیا۔
ایک اور چیز جو سلطان خیلوں کے پاس ان اعوانوں اور گھکڑوں کے ھاں سےآئی وہ ھے گرم موسم کا توڑ ” لنگ “
اس سے پہلے نیازیوں میں لنگ (لاچے) کا رواج نہیں تھا ۔
1747ء میں احمد شاہ درانی جب حضرت شاہ ولی اللہ ؒ کی دعوت پر مرہٹوں کی بیخ کنی کے لئے اس علاقے پر حملہ آور ھوا تو دیگر نیازی قبیلوں کی طرح سلطان خیل قبیلے نے بھی احمد شاہ درانی کا بھرپور ساتھ دیا۔
گھکڑوں کی مزاحمت پر احمد شاہ درانی نے گھکڑوں کو شکست فاش دی اوران کو اس علاقے سے بے دخل کرا کر سہرنگ خیل نیازیوں کو ان کی زمینوں کا مالک و مختار بنا دیا۔
جہاں جہاں جو جو نیازی شاخ آباد تھی وہاں کی اراضی ان کی ملکیت ٹھہری ۔
اور یہیں سے دیگر نیازیوں کی طرح سلطان خیل قبیلہ نے گلہ بانی کے ساتھ ساتھ کروندے
(کاشتکاری) کے پیشے کو بھی اپنایا ۔
سلطان خیل قبیلے نے برساتی پانی کو اسٹورکرنے کے لئے موسٰی خیل کے نواح میں ایک بند باندھا جو ٹوبہ سلطان خیل کے نام سے آج بھی موجود ھے اور یہی وہ ٹوبہ ھے جو سلطان خیل اور موسٰی خیل قبیلے کے درمیاں وجہ نزع بنا اور سلطان خیلوں کا گیڈے کے چکر میں فریب سے قتل عام اور علاقہ بدری کا المناک سانحہ پیش آیا ۔ سہرنگ خیل نیازی کی مختلف شاخیں جب تک یہاں پاوندے کی حیثیت سے رھے ان کے درمیان اخوت، بھائی چارے اور یگانگت کی فضا قائم رہی لیکن گھکڑوں اور اعوانوں سے بزور شمشیر پانے والی اراضی ان کے درمیان نفاق اور فساد کا سبب بن گئی اور سہرنگ خیل نیازی کی ذیلی شاخیں اراضی کے بنوں (حد بندی) پر باہم دست و گریبان ھوگئے ۔
کہیں بلو خیل قبیلہ وتہ خیل قبیلے کے ساتھ برسر پیکار رھا تو کہیں پائی خیلوں کا موچھ اور موشانیوں کے ساتھ اراضی کے حد بندی پر تنازعے اور جھڑپیں ھوتی رہیں ۔
سرہنگ خیلوں کے علاوہ عیسٰی خیل کے نیازیوں کی حالت بھی کچھ زیادہ مختلف نہیں تھی۔
سنبلوں کے بعد عیسٰ خیل نیازی دو بڑی شاخوں میں تقسیم تھے مموں خیل اور زکو خیل۔
مموں خیلوں کو زکو خیلوں پر عددی برتری حاصل تھی اور سرداری بھی مموں خیلوں کے پاس تھی مگر احمد شاہ درانی نے جب اس علاقے پر حکومت قائم کی تو اس نے رتبہ خانی زکو خیلوں کے حوالے کردی ۔
مموں خیلوں کو یہ بات ہضم نہیں ھوئی اور زمین کے تنازعے پر زکو خیل سردار دلیل خان کو قتل کردیا جو احمد شاہ درانی کا مقرر کردہ خان یا سردار تھا ۔
دلیل خان کا بیٹا خانزمان احمد شاہ درانی کے دربار میں فریاد لے کر گیا ۔
احمد شاہ درانی نے فوج بھیج کر مموں خیلوں کا قتل عام کیا اور جو بچ گئے وہ علاقہ بدر ھوگئے اور یوں دلیل خان کے بیٹے خانزمان کو رتبہ خانی پر فائز کیا گیا اور یہ خانی آج تک اسی خاندان کے پاس چلی آرھی ھے ۔
سکھوں کے دور حکومت تک مختلف نیازی قبیلوں کے درمیان زمینی تنازعات اور جھگڑے جاری رھے ۔
سلطان خیل قبیلے کا موجودہ مسکن میرے مطابق عیسٰی خیل نیازیوں کی اس علاقہ بدر شاخ مموں خیلوں کی ملکیت تھا سلطان خیل قبیلے نے موسٰی خیل سے آکر یہاں پڑاؤ ڈالا ۔
عیسٰی خیل کے زکوخیل جو خٹک اور مروت لٹیروں کی آئے دن کی چیرہ دستیوں سے تنگ تھے سلطان خیل کی آمد اور یہاں سکونت کو غنیمت جانا انہیں سلطان خیل قبیلے کی صورت میں ایک طرح سے بلا معاوضہ پہریدار مل گئے جو ان کے لئے کسی نعمت خداوندی سے کم نہ تھے اس لئے انہوں نے سلطان خیل قبیلے کو نہ صرف یہاں رہنے کی اجازت دی بلکہ ان کی ھر طرح سے معاونت بھی کی ۔
سلطان خیلوں کو یہاں بھی سکون نصیب نہیں ھوا ایک طرف یہ قبیلہ پہاڑ پار کے خٹک اور مروت لٹیروں کے ساتھ برسر پیکار رھا اور ان کی روک تھام کے لئے بدرگہ یعنی نوجوانوں پر مشتمل محافظ فورس بنائی جنہوں نے مروت اور خٹک لٹیروں کا سدباب کیا تو دوسری طرف زمین کی حدبندی اور تحفظ کے لئے اہل ترگ اور موشانیوں کے ساتھ بھی الجھے رھے اور ساتھ ھی ساتھ اپنے بھائی پائی خیلوں کی موچھ اور موشانیوں کے ساتھ جنگوں میں ان کی مدد بھی جاری رکھی ۔
قصہ مختصر ایران سے غور ، غور سے غزنی ، غزنی سے ٹانک ، ٹانک سے لکی مروت ، لکی مروت سے موسٰی خیل اور موسٰی خیل سے موجودہ مسکن سلطان خیل تک اس قبیلے نے اپنی بقا (survivel) کے لئے کیا کچھ نہیں کیا۔
جنگ وجدل ، محنت مشقت ، جانوں کے نذرانے ، علاقہ بدری، سفری صعوبتیں ، خانہ بدوشی اور بہت سی مالی قربانیاں اور نقصانات ۔
مگر آفرین ھے اس قبیلے پر کہ کبھی کسی کی غلامی گوارہ نہیں کی اور نہ ھی یہ غیور قبیلہ کبھی کسی کےسامنے جھکا ۔
کیوں ؟
کیونکہ انہوں نےاپنی پشتون ولی (پشتونزم) کو نہیں چھوڑا اور پشتون ولی میں غلامی ایک گالی ھے ۔
بات پاوندے سےکروندے تک کے سفر کی ھو رھی تھی مگر کہیں اور چلی گئی ۔
سلطان خیل کلی میں آباد ھونے کے وقت سلطان خیل قبیلہ اچھا خاصا پھل پھول چکا تھا اور کاشتکاری کے تمام طور طریقے بھی جان گیا تھا۔
یہاں آباد ھونے کے بعد سب سے پہلے کلی کے لوگوں نے قدرتی چشمے کے پانی کو اسٹور کرنے کےلئے ایک بند باندھا جو مٹھہ خٹک قصبے کی مناسبت سے مٹھہ ٹوبہ کہلایا۔
اور آج بھی موجود ھے مگر اب اس ٹوبہ کا کوئی مصرف نہیں ھے ۔
اس وقت یہ تمام خطہ (سیمہ) خراسان سے لیکر مٹھہ خٹک تک اور کسیری سے لیکر ڈھب وخیسوری تک غیر آباد ، ناہموار اور بنجر (نوکا) تھا۔
ھر طرف خودرو جھاڑیوں اور بیگاڑیوں ، اکڑے ، سسی،اسپاندے اور جنگلی درختوں کری ، کیکر ،پیلو ،پلوسوں کا مسکن تھا ۔
سلطان خیلوں نے پہلے تو اس علاقے کی اراضی آپس میں تقسیم کی اور پھر اپنے اپنے حصے کی بنجر اراضی کو شب و روز محنت سے آباد اور قابل کاشت بنایا۔
کھیت کھلیان بناکر بارانی پانی اور پہاڑی برساتی نالوں سے ان زمینوں کو سیراب کرنے لگے یہاں کی مٹی بڑی زرخیز نکلی اور مختلف فصلوں کی صورت میں سونا اگلنے لگی یوں زندگی کا سفر کچھ آسان ھوا۔
مگر یہاں کی تمام زمینیں بارانی تھیں اور بارش ھی ان کے خوشحالی کا واحد ضامن تھا جس سال بارش نہ ھوتی قحط سالی ھوجاتی اور لوگوں کو کھانے کے لالے پڑجاتے ۔
انہی قحط سالیوں اور بھوک و افلاس سے تنگ آکر اس قبیلے نے جزوی طور پر کراچی کا رخ کیا اور آج کراچی میں یہ قبیلہ عددی لحاظ سے نیازیوں کا سب سے بڑا قبیلہ ھے۔
گوروں کے دور حکومت میں جب ہمارے سیمے میں موجود پہاڑ ( کوہ نمک یا کوہ سلیمان) نے کالا سونا اگلنا شروع کیا تو کانکنی کی صورت میں یہاں کے محنت کشوں کو روزگار بھی ملا اور بنیادی انسانی ضروریات بھی یوں یہ خانہ بدوش قبیلہ ترقی کیے ساز پر ہمہ تن گوش ھو گیا۔
ھماری زرخیز زمین یوں تو ھر فصل کے لئے موزوں ھے مگر یہاں کی خاص فصلوں میں گندم ، چنا، سرسوں ، رائی باجرہ ، جوار ، جو اور گوارا شامل ھےجبکہ پھل اور سبزیوں میں خربوزے ، ہندوانے ، گاجر ، مولی ، آلو ، ٹماٹر اور سبز مرچ بھی اگائے جا رھے ھیں ۔
فصل دو طرح کی ھوتی ھے
ایک وہ جو سردیوں کے آغاز میں بوئی جاتی ھیں اور اسے گرمیوں کے آغاز یعنی اپریل میں کاٹتے ھیں جیسے چنا ، گندم ، سرسوں ، توریا اور رائی(جمیاں) وغیرہ انہیں اردو میں فصل ربیع کہتے ھیں مگر ھماری سلطان خیل پشتو میں اسے غنم (گندم ) کی نسبت سے ” غنم گورہ ” کہتے ھیں۔
دوسری فصل جو گرمیوں میں موسم برسات میں بوئی جاتی ھیں اور سردیوں کے آغاز پر کاٹی جاتی ھیں جیسے باجرہ ، جوار ، جو اور گواراہ
یہ اردو میں فصل خریف کہلاتی ھیں ھم اسے باجرے کی نسبت سے ” باجر گورہ “کہتے ھیں ۔
ھمارے ھاں چونکہ سب سے زیادہ اگائے جانی والی فصل گندم ھے جو آج کل تیار ھے اور جوبن پر ھے تو آج صرف اس فصل پر بات کروں گا ۔
گندم کے لئے پہلے زمین تیار کی جاتی ھے اور یہ غالباً شدید گرمیوں میں یعنی ھاڑ میں تیار ھوتی ھے جسے “ھاڑ ایوے” کہتے ھیں ایک دو ہل دینے کے بعد ساون کے مہینے میں بارش کے بعد اسے اچھی طرح پانی سے سیراب کیا جاتا ھے پھر اسے ایک اور ہل (گوڈی) دیا جاتا ھےـ
یوں نومبر تک اس تیار شدہ زمین میں نمی جسے پشتو میں
“سیبہ” کہتے ھیں برقرار رہتی ھے ۔
نومبر کے وسط تک گندم کی بوائی (نالئے) کا عمل مکمل ھوجاتا ھے بوائی سے پہلے زمین کو کھاد بھی دیتے ھیں آج کل کسان بازاری کھاد استعمال کرتے ھیں پرانے وقتوں میں گائے کا گوبر اور بکریوں کی مینگنیاں بطور کھاد استعمال ھوتی تھیں جسے اپنی زبان میں “سرّہ” کہتے تھے ۔
اس کے بعد بوئے گئےگندم کے بیج کو پانی لگا کر سیراب کیا جاتا ھے جہاں ٹیوب ویل نہیں ھیں وھاں کسان (ھیبانو) اللہ تعالٰی سے باران رحمت کی دعائیں مانگتے ھیں۔
گندم اگنے کے بعد جب یہ بالشت بھر کے ھوجاتے ھیں تو اسے خید (سبزہ/ ہریالی) کہتے ھیں اس ھریالی کو مویشیوں کے لئے بطور چارہ استعمال کرتے ھیں۔
اس خید کے بارے میں پشتو متل ھے ۔
“خر پہ خیدو خوراک چہ پائیژی”
یعنی گدھا کیا جانے گل قند
گندم میں خوشہ ( وژے) نکلنے سے پہلے پانی دینا ضروری ھوتا ھے بارانی علاقوں میں گندم کی فصل پر اگر اس موسم میں بارش ھو جائے تو اسے ودانہ (خوشحالی) سے تعبیر کرتے ھیں اور بارش نہ ھونے کی صورت میں کسان کی تمام محنت غارت جاتی ھے اور اس صورت حال کو روڑے (قحط) کا نام دیاجاتا ھے ۔
آج کل تو گندم کی فصل میں خوشہ لگنے کے وقت اس پر اسپرے بھی کرتے ھیں پرانے وقتوں میں اسپرے کا تصور نہیں تھا ۔
جب گندم کی فصل پک کر تیار ھوجاتی ھے تو کسان اسے دیکھ دیکھ کر خوش ھوتا ھے اور اگر ودانہ ھو تو کیا کہنے
درانتیاں تیز کی جاتی ھیں دیگر زرعی اوزار جیسے “ترنگل” اور “کرزو” باھر آجاتے ھیں ۔
گندم کی کٹائی (ریبل) کے عمل کو پشتو میں “لاؤ ” کہتے ھیں جو ھمارے اباؤ اجداد کےمطابق دنیا کا سب سے مشکل اور مشقت والا کام ھے مگر میرے نزدیک کانکنی لاؤ سے بھی زیادہ مشکل ھے ۔
پشتو کے عظیم شاعر حمزا بابا پشتو کے اس لَوْ کے بارے میں فرماتے ھیں
؎ مُڑ مِ کا، پانسی مِ کا، پہ تُوت پورے مِ وتڑہ
خو دا بہ راتہ نہ وے چہ غنم راسرہ وریبہ
ترجمہ ۔
مجھے مار ڈالو، پھانسی دے دو ، تُوت کے درخت کے ساتھ باندھے رکھو۔
مگر مجھ سے گندم کی کٹائی کا تقاضا تم کبھی مت کرنا۔
کروندہ ایک محنت طلب اور کل وقتی پیشہ ھے جس میں خاندان کے تمام افراد بچوں اور خواتین سمیت مویشی تک حصہ لیتے ھیں۔
اب تو خیر مشینی دور ھے گندم کی بوائی (کرل ) ، کٹائی( لاؤ) اور تھریشنگ ( غوبل / اڈاری) ھر عمل جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے آسان اور کم وقت میں ھوجاتا ھے ۔
پرانے وقتوں میں گندم کی کٹائی کے لئے بالندرے نامی تقریب کا اہتمام کیا جاتا تھا
گاؤں کے مردوں کا ایک دوسرے کے ساتھ باہمی امداد کے طور پر گندم کی کٹائی( لاؤ )کرنے کو بالندرے کہتے تھے ۔
بلندری میں شرکت کرنے والے محنت کشوں (لاویان) کو دونوں وقت کھانے میں دیسی مرغااورساتھ میں دیسی گھی پیش کیا جاتا تھا ۔
کٹائی کے عمل کے بعد گندم کی گھٹریاں باندھ کر ایک مخصوص جگہ پر لے جانے کےعمل کو ڈھوئی کہتے تھے ۔
وہ مخصوص جگہ ایک دو کنال پر مشتمل قطعہ زمین کو سخت بناکر چھوڑا جاتا تھا جسے ڈاگ کہتے تھے اس ڈاگ پر کٹی ھوئی گندم کو پھیلا کر اس پر بیلوں کے جوڑے جن کے پیچھے پلوسے یا کیرکنڑے نامی درخت کا کانٹے دار شاخ باندھ کر گھومایا جاتا تھا اسے اپنی زبان میں “غوبل ” کہتے تھے اور بیلوں کے پیچھے باندھی جانے والی کانٹے دار شاخ مراڑا کہلاتی تھی ۔
اس عمل کے ذریعے گندم کے بیج خوشے سے الگ ھوجاتے تھے اور گندم کے ڈینٹھل بھوسا ۔
غوبل کے بعد گندم کے دانوں کو بھوسے سے الگ کرنے کا مرحلہ پیش ھوتا جسے” ترنگلئے” اور
” کُرزُو “نامی زرعی اوزاروں کے ذریعے ایک خاص ٹکنیک سے ھوا میں اچھالا جاتا تھا ۔
بھوسا ہلکا ھونے کی وجہ سے اڑکر دور جا گرتا اور گندم کے دانے بھاری ھونے کی وجہ سے اسی جگہ پر آ گرتے تھے ۔
اس عمل کو ” اُڈاری” کہتے تھے
کرزو اور ترنگلئے کی پکچر کسی کے پاس ھوں تو کمنٹس میں share کردے ۔
اڈاری کے ذریعے صاف کی ھوئی گندم کے دانوں کا ڈھیر لگاتے
جسے وانڑہ کہتے تھے اور پھر یہ گندم ڈھائی کلو گرام حجم رکھنے والے ایک برتن سے تولا جاتا تھا جسے “اوژے ” کہتے تھے ۔
اور اس تولنے کے عمل کو ” وانڑہ” ھی کہتے تھے ۔
تولنے کے بعد جس مخصوص بوری میں یہ غلہ ڈالا جاتا تھا اسے “غیندے ” کہتے تھے
یہ غلہ گھر پہنچنے پر مٹی کے ایک بہت بڑے برتن میں ڈالا جاتا تھا جسے ” اوکانا ” کہتے تھے ۔
بھوسے کو ایک بڑے جال میں بھرا جاتا تھا اسے “ترنگنڑ کہتے تھے مگر یہ سب ماضی کی باتیں ھیں ۔
ڈاگ پر چارپائیاں باندھ کر گندم کے بھوسے کی مختلف سائز میں پیکنگ کی جاتی ھے اور پیک شدہ بھوسے کی بڑی بڑی ڈھیریاں بنائی جاتی ھیں جو “پالے ” کہلاتے ھیں ۔ یہ بھوسہ سال بھرمویشیوں کو چارے کے طور پر استعمال ھوتا ھے اس بھوسے کے ساتھ ” کھل(کھلی)” ملاکر جو معجون تیار ھوتا ھے اسے “گوتاوا” کہتے ھیں جو صرف چانجلے مویشیوں یا دودوھ دینے والی گائے کو بطور خاص پیش کیا جاتا ھے۔
تحریر: عطاء اللہ خان نیازی سلطان خیل
شہزادہ سلیمان شاہ خلف شہزادہ جلال الدین سدوزئی مدفن میانوالی: لفظ “نیازی” کے تعاقب میں۔۔۔ روکھڑی کا نام روکھڑی کیوں ہے؟ مکڑوال تاریخ کے آئینہ میں۔۔۔ نیازی قبیلہ کی عسکری تاریخ…. ہیبت خان نیازی اور چاکر رند کے مابین تعلقات۔۔۔ عظمت رفتہ سے حال شکستہ تک۔۔۔ شکردرہ کی سرزمیں کے تین سیبوں کا قصہ۔۔۔ پشتون ثقافت کا طرٌہ امتیاز۔۔۔ طرّہ و دستار پٹھان قبیلہ سمین کی تاریخ
میانوالی میں صحیح معنوں میں ایک ہی لیڈر پیدا ہوا جو کہ شیر مان خیل قبیلہ سے ہے جس کا نام عمران احمد خان نیازئی ہے۔ جو آکسفورڈ اور ایچیسن کالج لاہور کا تعلیم یافتہ ہے۔ اس کا قبیلہ سخت ہٹ دھرم اور عاقبت نا اندیش ہے عمران خان کی والدہ جالندھر کے برکی پٹھان قبیلے سے ہے جس کی زبان کو اورمڑی کہا جاتا ہے ۔اس قبیلے کے لوگوں کی ایک آنکھ نیلی اور دوسری سبز ہوتی ہے