سلام اس مردِ جری پرجس نے اپنی دھرتی کومتحدرکھنے کی خاطر اپنے جانثاروں کے ہمراہ مسلسل دس ماہ تک ایک مہلک ترین گوریلا وار کا سامناکیا، قربانیاں دیں،قیدو بندکی صعوبتیں کاٹیں اور ہم وطنوں کی جانب سے اپنی انتہائی توہین بھی برداشت کی
قارئین!حسب سابق اس سال بھی 16دسمبر کویوم سقوط ڈھاکہ کے موقع پر پرنٹ ،الیکٹرانک اورسوشل میڈیا پر ہمارے دانش ورں اور مختلف حلقوں کی جانب سے جنرل نیازی اور ان کے بہادراراکین پر لعن طعن کرتے ہوئے ایک بار پھرقوم کو وہی پراناسبق یاد دلایاجائے گا کہ حب الوطنی کی سب سے بڑی ”سند“بس یہی ہے کہ آج کے دن جنرل نیاز ی اورمشرقی پاکستا ن محاذپرلڑنے والے دیگر جانثاروں کے کفن تار تار کردیے جائیں اور ان پر طعن و تشنیع کے تازیانے برسائے جائیں ۔
یہ گمراہ کن پروپیگنڈہ گزشتہ 47سال سے جاری ہے اور ان سپوتوں کو گالیاں والوں میں”حب الوطنی “کے سر ٹیفکیٹ تقسیم کیے جا رہے ہیں ۔ ذیل کی سطورمیں ہم معمول کی اس روٹین سے ذرا ہٹ کر صرف جنرل نیازی کے حوالے سے اس قومی سانحہ کا مختصرسا جائزہ لیں گے۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ مشرقی پاکستان کی شکست سیاسی تھی یا فوجی؟اس کا سادہ اورمبنی بر انصاف جوا ب تو یہی ہے کہ یہ مغربی پاکستان کی اعلیٰ سیاسی اور فوجی قیادت کی باہمی ملی بھگت کا نتیجہ تھی تاہم قیادت نے یہ عقل مندی ضرور کی کہ ایک طے شدہ منصوبے کے تحت اس بدترین شکست کا ملبہ جنرل نیازی اور مشرقی محاذ پر نہایت جرات کے ساتھ لڑنے والے محافظوں پر ڈال کر خود عوا م کی نظروں میں سرخرو ٹھہری۔ بریگیڈیئر چودھری نے لکھا تھا:” جب اعلیٰ قیادت نے دیکھا کہ مشرقی پاکستان کے زوال کو روکنا آسان نہیں تو وہ اس سانحے کو اپنے سر لینے کے بجائے جنرل نیازی پر ڈالنے کی تیاری کرنے لگے“۔نیازی کی بدقسمتی یہ بھی تھی کہ اس کا تگڑا سیاسی وفوجی بیک گراﺅنڈ نہ تھا۔وہ ایک متوسط گھرانے کا فرد تھا اور محض اپنی محنت اور لگن کی بدولت ترقی کر تے ہوئے لیفٹیننٹ جنرل کے رینک تک پہنچا تھا۔
ڈھاکہ شکست کا جائزہ لینے کے لئے چیف جسٹس حمود الرحمان ، جسٹس انوار الحق ، جسٹس طفیل علی عبدالرحمان اور لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ الطاف قادر پر مشتمل حمود الرحمان کمیشن بنایاگیاتھا جس نے تین سو سے زائد گواہوں کے بیانات قلمبند کرنے کے بعداپنی رپورٹس انیس سو بہتر اورانیس سو چوہتر میں پیش کیں۔
کمیشن نے بار ہاجنرل نیازی پر اخلاقی بے راہ روی اور پان کی سمگلنگ کے الزامات عائد کیے۔ حمود الرحمان کمیشن نے ان پرڈھاکہ میں غبن، لوٹ مار او ر ایک بینک سے دوکروڑ روپے لوٹنے کاالزام بھی عائد کیا۔کمیشن کی طرف سے ان کے خلاف کورٹ مارشل کی سفارش کی گئی جس کے تحت حکومت نے ان کے تمام فوجی رینکس ،تمغے اور پنشن ضبط کر لی ۔
دراصل حمود الرحمن کمیشن نے مغربی پاکستان کی اعلیٰ قیادت کو ایک طرف رکھ کر ساری ذمہ داری جنرل نیازی اور مشرقی محاذ کی فوج پر ڈال دی تھی جبکہ اس شکست کے اصل ذمہ دارمغربی پاکستان میں بیٹھے ہوے تھے.
بھارت سے رہائی کے بعد جنرل نیازی مسلسل اپنے کورٹ مارشل کا مطالبہ کرتے رہے اور اس پر بھی اصرار کرتے رہے کہ ان پر مشرقی پاکستان میں کرپشن اوردیگر سنگین جرائم کاثبو ت پیش کیاجائے لیکن حکومتوں نے کوئی توجہ نہ دی۔
دراصل حمودالرحمن کمیشن کا مقصد مغربی پاکستان کے فرشتوں کو بچانا اور مشرقی پاکستان کے محافظوں کو موردِ الزام ٹھہرانا تھا۔
کمیشن نے یہ بھی لکھا کہ ہماری فوج بنگلہ دیش میں عیاشیوں میں مصروف رہی۔ کمیشن کی ایسی رپورٹس کو پاکستان کی ایک سیاسی پارٹی نے خوب اچھالا اور مشرقی پاکستان محاذ کے مجاہدین پر لعن طعن کا دروازہ کھو ل دیا گیا۔ کمیشن نے لکھا تھاجنرل نیاز ی نے نوے ہزار مسلح افواج کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کیا تھا جبکہ مشرقی پاکستان محاذ پر ہماری لڑاکا فوج کی تعداد صرف پینتالیس ہزار تھی اور باقی پچاس ہزار کے قریب افراد مغربی پاکستان کے شہری تھے جو وہا ں مقیم تھے۔ نومبراوردسمبر71ءمیں نیازی کو بار بار ایسے سگنلزموصول ہوئے جن میں کہا گیا کہ اگرچاہو تو ہتھیار ڈال کر اپنی تھکی ماندی فوج کی جانیں بچا لو کیونکہ ہم تمہاری مدد کرنے سے قاصر ہیں.
جنرل نیازی کا نام امیر عبد اللہ خان نیازی تھا اور وہ ٹائیگر نیازی کے نام سے مشہور ہوئے۔یہ ٹائٹل انہیں دوسری جنگ عظیم کے دوران بہترین حربی خدمات کی بنا پر دیا گیا تھا۔اسی جنگ میں انہیں ملٹری کراس اور ہلال جرات سے نوازاگیا۔قیام وطن کے بعد انہیں ستارہ خدمت اور ستارہ پاکستان عطا کئے گئے۔انہوں نے اپنے فوجی کیرئیر میں دو درجن سے زائد اعلیٰ فوجی تمغے حاصل کئے۔پاکستان کی فوجی تاریخ میں وہ سب سے زیادہ تمغے حاصل کرنے والے جنرل تھے اورا نہیں” موسٹ ڈیکوریٹڈ سولجر“قرار دیاگیا۔
جب بیشتر جرنیلوں نے مشرقی پاکستان کی کمان لینے میں ہچکچاہٹ کا اظہار کردیا تو نیازی نے بڑی جرات کے ساتھ یہ چیلنج قبول کیا۔ جنگ ستمبر میں بھی انہوں نے غیر معمولی حربی صلاحیتوں کامظاہرہ کیاتھا۔بھارتی فو ج نے ان کے حربی کارناموں کو دیکھتے ہوئے انہیں ”سپاہیوں کا جنرل“کہا تھا.
جنر ل امیر عبداللہ خان نیازی 1915ءمیں میانوالی کے پسماندہ گاﺅں بلو خیل میں پیدا ہوئے اور 1942ءمیں فوجی کیرئیر کا آغاز کیا ۔ ٹائیگر نیازی خطہ میانوالی کا وہ قابل فخر سپوت تھا جس نے مادرِوطن کی خاطر جانثارساتھیوں کے ہمراہ نو ماہ تک خطرناک گوریلا وار کا سامناکیا۔قیدکاٹی اور ہم وطنوں کی جانب سے مسلسل اپنی توہین بھی برداشت کرتے رہے بلکہ اس توہین و تحقیر کاسلسلہ آج بھی جاری ہے ۔
نیازی غیرت مند نہ ہوتا تو بھارتی قید سے واپس لاہورپہنچنے پر کبھی یہ نہ کہتا کہ” میر ا تعلق غیرت مندوں کی سرزمین میانوالی سے ہے اور جس قدرمجھے بدنام کردیاگیا اب تومجھے میانوالی میں برقع پہن کر جانا ہوگا“۔
دراصل ڈھاکہ میں بغاوت کے شعلوں کو ہوادینے میں سب سے اہم کردار جنرل ٹکاخان تھا۔جنرل ٹکا خان کو مارچ1971 ءمیں بطور کمانڈر اور گورنرمشرقی پاکستان ‘ڈھاکہ روانہ کیا گیا۔ٹکا خان نے سب سے پہلے بنگالی یونٹوں کو غیر مسلح کرنا شروع کر دیااور چند دنوں بعد اس کی ساری توجہ چھاﺅنیوں اور فوجی مقامات کو تحفظ دینے تک مرکوز ہو گئی۔کیونکہ ٹکاخان کے بے رحم فوجی آپریشن کے بعد فوج کا بیرکوں اور چھاﺅنیوں سے باہر نکلنا محال ہو چکاتھا۔ٹکاخان نے میڈیا کے نمائندوں کرہراساں کیا اور انہیں مشرقی پاکستان سے باہر نکال دیا جس سے نشریاتی ادارے پاکستان کے خلاف ہوگئے اور وہ غلط خبریں دینے لگے ۔ ذرائع ابلاغ کی مشرقی محاذ تک رسائی نہ ہونے کی وجہ سے برسرپیکار پاک فوج کے بارے میں غلط خبریں نشر کی جانے لگیں اور مغربی پاکستان میں ان خبروں کو درست سمجھاجانے لگا۔یوں ڈھاکہ کی اصل صورت حال مغربی پاکستان تک نہیں پہنچ پا رہی تھی۔25مارچ71ءکی شب کمانڈر مشرقی پاکستان جنر ل ٹکا خان نے اچانک فوجی کارروائی شروع کر دی اور تمام عسکری وسائل کارروائی میں جھونک دیئے۔
ٹکا خان نے یہ کارروائی اس بے رحمانہ انداز سے شروع کی تھی جیسے مد مقابل چند سو بگڑے اپنے شہری نہیں بلکہ باقاعدہ دشمن فوج ہو۔اس کے حکم پر سیکیورٹی فورسز نے ڈھاکہ کی شہری آبادی کو خون میں نہلا دیا تھا۔
ٹکاخان کا یہ ملٹری ایکشن ایک کھلی درندگی تھا۔جنرل فرمان نے اسی کارروائی کے متعلق کہا تھا کہ ٹکاخان کے حکم پر” مشرقی پاکستان کی سبز زمین کو سرخ کردیا گیا“۔
یادرہے کہ ٹکاخان کی فوجی کارروائی سے پہلے بنگالیوں نے باقاعدہ مسلح بغاوت کا آغاز نہیں کیا تھا ۔اس بہیمانہ فوجی کارروائی کے نتیجے میں بنگالیوں میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی ، وہ بھارتی فوج سے جاملے اور مکتی باہنی کا حصہ بن کر باقاعدہ جنگ کی تیاری کرنے لگے۔اسی موقع پر بھٹو نے ٹکا خان کو شاباش دیتے ہوئے کہا تھا کہ تم نے بالکل وہی کیا جو کرنا چاہیے تھا، تمہارا مستقبل محفوظ ہے۔اوربعد میں واقعی ٹکا خان کا مستقبل محفوظ کر دیاگیاتھا۔
جس وقت بنگال کی سرزمین پر ٹکا خان کی خونی کارروائی جاری تھی جنرل نیازی لاہور میں پاک فوج کی دسویں ڈویژن کی کمان کر رہے تھے۔ دو اپریل کو انہیں جی ایچ کیو طلب کر کے کہا گیا کہ ٹکا خان کی کارروائی سے حالات بہت بگڑ چکے ہیں لہذاآپ کو جنگی مہارت اور سابقہ ریکارڈ کے پیش نظر مشرقی پاکستان کا کمانڈر مقرر کیاجاتا ہے۔جنرل نیازی نے جواب دیا کہ ایک فرض شناس سپاہی کا کام صرف حکم کی تعمیل ہے لہذا میں حاضر ہوں۔
جس وقت نیازی ڈھاکہ پہنچے اور کمان سنبھالی پورا ڈھاکہ بغاوت کی آگ میں جل رہا تھا ۔ فوج کی حالت نہایت ابتر تھی ۔ بنگالیوں نے طے کر لیا تھا کہ وہ پاکستان کے ساتھ مزید نہیں رہ سکتے۔ بازار اور دکانیں ویران تھیں۔ سول بنگالی ملازمین چھاﺅنیوں کو جانے والی بجلی کی فراہمی اور پانی کی ترسیل میں مسلسل رکاوٹ پیدا کررہے تھے۔فوجیوں کا بیرکوں سے نکلنا محال ہو چکا تھا۔غرض سرزمین بنگال کا چپہ چپہ بغاوت پر کمر بستہ ہو چکا تھا۔اس وقت فوج صرف چھاﺅنیوں کے اردگرد مسلح لوگوں سے برسرپیکار تھی اور مسلسل دفاعی پوزیشن اختیار کر رہی تھی۔ذرائع مواصلات معطل اور دریائی کشتیاں ،گھاٹ فوج کے قبضے سے نکل چکے تھے۔
ان انتہائی نامساعدحالات میں نیازی کو تن تنہا ایک مشکل جنگ میں ڈال دیا گیا ۔نیازی نے حالات کا جائزہ لیا ۔ مغربی پاکستان کی شاطرانہ چال کو سمجھا ، مشرقی پاکستان کے حالات دیکھے اور چند دنوں بعد اسلام آباد میں بیٹھی قیادت سے کہا کہ میں مغرب سے کٹ چکاہوں اور مجھے لگتا ہے میں تنہا اور لاچار ہو جاﺅں گا۔قیادت نے کہا آپ فکر نہ کریں مرکزیعنی اسلام آباد چین اور تبت کے راستے سے تمہاری بھرپور دیکھ بھال کر ے گا ۔ امریکی بحری بیڑے بھی امداد کو آئیں گے اور تبت کے راستے چینی فوج بھی آئے گی ۔
اپریل سے دسمبر71ءتک نیازی اور ان کے ساتھیوں نے انتہائی مشکل گوریلا جنگ لڑی ۔تقریبا ً نو ماہ کے بعد پاکستان کو متحدرکھنے کے لیے سردھڑ کی بازی لگا دینے والے یہ لوگ اب لاوارث ہو چکے تھے اوران کاکوئی پرسا ن حال نہ تھا۔ جب نیازی اور ان کے ساتھی بھارتی فوج ، مکتی باہنی کے محاصرے میں گھر چکے تومغربی پاکستان کی طرف سے انہیں کورا جواب ملا کہ ہمیں بہت افسوس ہے ہم تمہاری مدد نہیں کر سکتے ۔ اب تمہیں خود پر انحصار کرنا ہوگا، جو مرضی کرو ۔
جب بھی ٹائیگر نیازی امداد کا تقاضا کرتے تو طنزیہ فقرے کسے جاتے کہ ”نیازی اب پاگل ہو چکا ہے“۔ ستمبر1971ءمیں جنرل نیازی کے سٹاف افسر نے انہیں اہم ترین خبردی کہ اعلی ترین سطح پر یہ فیصلہ ہو چکا ہے کہ مشرقی پاکستان میں برسرپیکارپوری فوج کو قربانی کا بکرا بنایاجائے اور وہاں کے سیاسی ٹولے نے ڈھاکہ بروقت چھوڑنے کا تہیہ کر لیا ہے۔
نیازی کو شکوہ تھا کہ مغربی پاکستان نے بیچ منجدھار چھوڑکر ان سے قطع تعلق کر لیاتھا۔نیازی کی تجویز تھی کہ ان کے جنگی سازو سامان کی کمی پوری کی جائے اور کچھ ہوائی جہاز ، طیارہ شکن توپیں ، ٹینک بھیج دیئے جائیں تو وہ پورے پاکستان کی جنگ بھارت کی سرزمین پر لڑ سکتے ہیں۔
جنرل نیازی ایک بہادر اور چالاک جنرل تھا،اس نے بھارتی ریاستوں میزو رام ،آسام اور نیکسلائٹ باغیوں سے خفیہ رابطہ کر لیا تھا ۔ان باغیوں کا کہنا تھا کہ اگر انہیں پاکستان کی جانب سے اسلحہ مہیا کیا جائے تو وہ ایک ہولنا ک گوریلا جنگ شروع کر کے بھارت کو بوکھلاہٹ میں مبتلا کرسکتے ہیں۔نیازی کا منصوبہ بھارتی سرزمین میں گھسنے کا تھا ۔ ان کا نقطہ نظر تھا کہ اب تک ہم اپنی زمین پر لڑ رہے ہیں اور جسمانی ومالی نقصان اٹھا رہے ہیں، جب ہم یہ جنگ بھارتی شہریوں کے ذریعے اس کی سرزمین پر منتقل کردیں گے اور بھارت کے شہروں میں گھسیں گے توجارحانہ منصوبے روکنا بھارت کی مجبوری بن جائے گا۔جب بھارت جارحانہ سے دفاعی پوزیشن پر چلاجائے گا تو اس پر قابو پانا آسان ہوجائے گا۔
اس پر مغربی پاکستان کی بزدل قیادت کے پسینے چھوٹ گئے اور کہا گیاکہ ہم بھارت کے ساتھ کھلی جنگ کے متحمل ہرگز نہیں ہوسکتے اور ہم مشرقی پاکستا ن کی خاطر مغربی پاکستان کو نہیں گنوانا چاہتے۔مغربی پاکستان کی عیار قیادت نے کہا تھا: نیازی کی تجاویز اچھی ہیں اور جذبہ بھی بلند ہے لیکن ہم اس کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ اگر نیازی کے ساتھی یونہی ڈٹے رہے تو مغربی پاکستان کی سلامتی بھی خطرے میں پڑ سکتی ہے۔
ایک وقت ایسا بھی آیا جب پاک فوج کے دستے مکتی باہنی کو پیچھے دھکیلتے ہوئے بھارت تک لے گئے اور نیازی نے جوانوں کو حکم دیا کہ ان جنگجوﺅں کا بھارتی پناہ گاہوں تک پیچھا کیاجائے لیکن ”مرکز“ نے نیازی کو حکم دیا کہ دستوں کو واپس بلایا جائے ۔ علانیہ طور پر یوں بھارت کے سامنے آجانا مغربی پاکستان کے لئے بہتر نہیں۔
بھارتی جنرل خشونت سنگھ نے اپنی کتاب ”انڈین آرمی ، آزادی کے بعد“میں لکھا :” باغیوں کا مقابلہ کرتے ہوئے پاکستان کی باضابطہ بیالیس ہزار فوج نے پورے مشرقی پاکستان میں مسلح باغیوں سے نمٹنا تھا اور یہ حقیقت ہے کہ بغاوت کو کچلنے میں ان کی طویل کارروائی کے اثرات بہرحال مرتب ہونے لگے تھے“۔
ڈھاکہ میں ہتھیار ڈالنے کی تقریب میں برطانوی نشریاتی ادارے کے نمائندے نے ٹائیگر نیازی سے پوچھا آپ کیا محسوس کر رہے ہیں؟نیازی نے جواب دیا نہایت دل شکستہ اور مایوس ہوں۔اس پر قریب کھڑے بھارتی جنرل جگجیت سنگھ اروڑا نے کہا کہ نیازی کو ایک مشکل اور کٹھن لڑائی میں دھکیل کر ایک ناممکن فریضہ سونپ دیا گیا تھا ۔ ان حالات میں کوئی بھی جنرل یہی کرتا جو نیازی نے کیا ہے ۔ نیازی، یہ تمہارا ہی حوصلہ تھا کہ تم نے مسلسل نوماہ تک خانہ جنگی کاسامنا کیا اورہمیں ڈھاکہ کی جانب نہ بڑھنے دیا۔
جنرل نیازی کے حوالے سے راقم السطورگزشتہ کچھ عرصہ سے تواترکے ساتھ لکھتاآیاہے تاہم اس سال (2018ءمیں)یوم سقوط ڈھاکہ کے موقع پر بہترمعلوم ہورہا ہے کہ سینئرصحافی ضیا شاہدکی تازہ ترین شائع ہونے والی کتاب ”میرادوست نوازشریف“میں جنرل نیازی کے ایک نامکمل انٹرویوکاحوالہ دے دیا جائے۔
خوش آئند بات یہ ہے کہ طویل سکوت کے بعد اب اہل صحافت اور اہل دانش نے بھی جنرل نیازی کے حق میں کچھ نہ کچھ لکھنا اوربولنا شروع کیاہے اورایسامحسوس ہوتا ہے کہ واقعی اب برف پگھل رہی ہے اور دوسرا بیانیہ بھی سامنے آرہا ہے۔
ضیا شاہدلکھتے ہیں کہ انہیں1974ءمیں جنرل نیازی سے انٹرویوکاموقع ملا۔میں نے کہا کہ بہت سی کتابوں میں تواترکے ساتھ یہ الزام دوہرایاگیا ہے کہ پاکستانی فوجیوں کاطرزعمل بہت قابل ِاعتراض تھا۔اس پرجنرل نیازی غصے میں آگئے ،وہ ڈرائنگ رو م سے اٹھ کر اندرگئے اور بھارت میں چھپی ایک کتاب لے آئے.
نیازی نے اس کتاب کے چندباب اورعنوانات دکھائے اورکہاکہ پاک فوج ایک ڈسپلن میں رہنے والی آرمی ہے۔کیاکسی جگہ پر اس کا افسر اپنے جوانوں کویہ حکم دے سکتاہے کہ Stand easy and now rape۔
یہ بوڑھاجرنیل کیساتھااور کیسانہیں مجھے نہیں معلوم ،لیکن میں خداکوحاضروناظرجان کرکہتاہوںکہ مجھے یہ واقعہ سناتے ہوئے اس کی آنکھوں سے آنسومسلسل رواں تھے اوروہ کہہ رہاتھاکہ ضیاشاہد پڑ ھو،اس ہندو بنگالی نے کیالکھاہے۔کیاکسی بھی ملک کی باقاعدہ آرمی کاکوئی باقاعدہ افسر یہ آرڈر جاری کرسکتاکہ
Be ready to rape
میں عمرمیں جنرل نیازی سے بہت چھوٹاتھا ، تاہم میں نے ان کے ہاتھ سے یہ کتاب لے لی اور ڈائننگ روم پر پڑے ڈبے سے ٹشوپیپر لے کران کے آنسو صاف کرتارہا۔جنرل نیازی کہہ رہے تھے ۔ہاں! ضیاشاہد ہم سے بہت غلطیاں ہوئیں لیکن جتناجھوٹ کتابوں میں لکھا گیاہے کہ اس کا تو ایک فیصد بھی صحیح نہیں ہے۔ضیا شاہد مزید لکھتے ہیں کہ نیاز ی کا یہ انٹرویونامکمل رہا۔کیونکہ جب آپ ایک بوڑھے فوجی جرنیل کو آنسوﺅں سے روتاہوادیکھیں تو دماغ اگلا سوال فریم کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا“۔
بھارتی قید سے رہائی کے بعد ایک بڑی سیاسی شخصیت نے جنرل نیازی سے کہا تھا میں تمہیں موقع دیتا ہوں اگر تم عوامی جلسوں میں یہ موقف اپناﺅکہ” یہ شکست سیاسی نہیں فوجی تھی “تو میں تمہیں وزارت دلواﺅں گا،پنشن دلواﺅں گا ۔ تمام فوجی اعزازات بھی تمہیں واپس کیے جائیں گے اور دیگر نوازشات کادروازہ بھی تم پر کھل جائے گا لیکن نیازی نے دوٹوک جواب دیتے ہوئے کہاکہ میں نے اور میرے جوانوں نے مسلسل کئی ماہ تک بدترین جنگ کا سامنا کیا اور قربانیاں پیش کیں، قید کاٹی۔ میں اپنے بہادر سپوتوں کی توہین کی جسارت نہیں کر سکتا۔ اس پر سیاسی شخصیت نے دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ ہم تمہارا نام گالی بنا دیں گے اور واقعی ایسا ہی ہوا اور قوم کی جنرل نیازی اورمشرقی محاذپرلڑنے والے سرفروشوں کے متعلق ایسی منفی ذہنیت بنادی گئی کہ آج کوئی بھی ان محافظوں کا مقدمہ لڑنا تو دور کی بات ان کا نام لینے کو بھی تیار نہیں۔یہی وجہ ہے کہ آپ پرنٹ، الیکٹرانک میڈیا یا کسی بھی عوامی فورم پر جنرل نیازی یا مشرقی محاذ پر لڑنے والے محافظوں کے دفاع میں کچھ لکھنا اوربولناچاہیں تو اس کی قطعی طورپراجازت نہیں دی جاتی کیونکہ ہماری ”دانش“نیازی اور ان کے ساتھیوں پر غدار وطن ،شرابی ، بزدل اور کرپٹ کی مہرثبت کرچکی ہے اوراب اس کے علاوہ وہ کچھ بھی نہیں سنناچاہتی ۔
تحریر: عبدالستار اعوان