مدینہ کے سرنڈر سے لیکر ڈھاکہ کے سرنڈر تک


خلافت عثمانیہ کے جنرل پاشا اور پاکستان کے جنرل نیازی کی یکساں کہانی…
ایک ہیرو تو دوسرا زیرہ
ذہنی بالیدگی اور ذہنی آلودگی سے متاثرہ دو قوموں کے دو کردار..


یہ دس جنوری 1919ء کو مدینہ طیبہ میں ہونیوالی ایک ناخوشگوار صبح ہے. باغی عرب ملیشیا اور انکے ہمنوا برطانوی اور فرانسیسی افواج کرنل تھامس لارنس کی قیادت میں مدینہ منورہ میں داخل ہوچکی ہیں جبکہ مدینہ منورہ کا عثمانی سلطنت کی طرف سے متعین کردہ کمانڈر فخر الدین پاشا سرنڈر کرچکا ہے.. حجاز (مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ) پر عثمانی سلطنت کی حکومت کا چار سو سالہ طویل اقتدار اپنے اختتام کو پہنچا…
ویسے تو سلطنت عثمانیہ دو ماہ قبل یعنی تیس اکتوبر 1918ء کو باقاعدہ معاہدہ مدروس میں ہتھیار ڈال چکی تھی لیکن یہ آخری محاذ تھا جہاں پر معاہدہ مدروس کے سرنڈر کے بعد عثمانی پاشا (جنرل) فخر الدین نے سرنڈر کیا..


جیسے بنگالیوں کو ہندوستان نے پاکستان کے خلاف اکسایا اور مکتی باہنی کے زیر اہتمام بغاوت کا سلسلہ شروع کیا گیا بلکل اسی طرح حجاز میں بھی برطانیہ نے لارنس آف عربیہ اور ہمفرے جیسے اپنے گمشتوں کے ذریعے عربوں کو عثمانی سلطنت کے خلاف بغاوت پر ابھارا.. مشرقی پاکستان میں بھی تحریک کا محور بنگالی قوم پرستی تھا. بلکل اسی طرح حجاز میں بھی عرب نیشنلزم کو ہوا دی گئی…
جسکے زیر اثر آکر ہر دونوں محاذوں پر مسلمانوں نے ہی اپنے مسلمانوں کے گلے کاٹے…
مدینہ منورہ بھی ڈھاکہ کی طرح اپنے مرکز سے کٹ چکا تھا سپلائی اور تازہ کمک کی دستیابی مسدود ہوچکی تھی.
مدینہ منورہ بھی اپنے دارالحکومت استنبول سے اڑھائی ہزار کلومیٹر دور ہر طرف سے دشمن میں گھرا ہوا تھا تو بلکل اسی طرح ڈھاکہ بھی اپنے دارالحکومت اسلام آباد سے اڑھائی ہزار کلومیٹر دور اپنی بقا کی جنگ لڑ رہا تھا…
ان دونوں محاذوں میں فرق صرف یہ تھا کہ سلطنت عثمانیہ نے عربوں کے ساتھ سیاسی مصلحت کی بھرپور کوششیں کیں اور انھیں بھرپور اختیارات دیئے لیکن لگتا ہے کہ عرب ترکوں کے اس طویل دور حکمرانی سے اب اکتا چکے تھے جبکہ دوسری طرف پاکستان میں مغربی پاکستان کی اشرافیہ اقتدار کی جنگ میں باہم دست و گریبان تھی بھٹو الیکشن ہار کر بھی حکومت کرنے کا خواہاں تھا جبکہ جنرل یحییٰ جو زبردستی مسند حکومت ہر براجمان ہوا بیٹھا تھا اسکا اترنے کا دل نہیں کررہا تھا تیسری طرف شیخ مجیب الرحمٰن جس نے بنگالی نیشنلزم کو اتنا بڑھاوا دیا کہ الیکشن جیت جانے کے باوجود بھی اسٹیبلشمنٹ اسکو اقتدار دینے کی حامی نہ تھی..
اس کے علاوہ ایک اور فرق یہ تھا کہ اہل مدینہ منورہ ہمیشہ کی طرح اس بار بھی خاموش تماشائی تھے بھلے وہ اندر سے باغی عربوں سے ہمدردی ضرور رکھتے تھے مگر نہ تو وہ کھل کر ترکوں کے حمایتی تھے نہ ہی ترکوں کے مخالف نہ ہی انھوں نے ترکوں کے خلاف کوئی عسکری کارروائیاں کیں جبکہ دوسری طرف مشرقی پاکستان میں ہر بنگالی مغربی پاکستان کے ہر سول و عسکری شخص کے خون کا پیاسا بن چکا تھا..
کیونکہ مدینہ منورہ میں جنرل فخر الدین پاشا کے سرنڈر کے بعد ایسا کوئی شخص ترکی کی مسند حکومت پر نہیں بیٹھا جسکا کردار اس واقعہ میں ہوتا تبھی ترکوں نے فخر الدین پاشا کی جرات مندی، اولوالعزمی سے کئے گئے راست فیصلہ کو سراہا ہتھیار ڈالنے کا حکم خلیفۃ المسلمین حضرت محمود سادس بھی دے چکے تھے کہ مدینہ منورہ کی بے حرمتی بھی نہ ہو اور بلاوجہ انسان جانوں کے ضیاع کو بھی روکا جا سکے.. جنرل فخر الدین پاشا آج بھی حکمنامہ پر عمل کرکے ترکوں میں قابل فخر ہے کیونکہ ترک غلام نہیں رہے اور ذہنی شعور و بالیدگی سے آراستہ ہیں..


دوسری طرف جیسا کہ بتایا ہماری مشرقی پاکستان کی جنگ ہی اقتدار کی رسی کشی کیلئے شروع ہوئی وہاں تعینات بڑے اعلیٰ پائے کے سمجھے جانے والے جرنیلوں یعنی جنرل صاحبزادہ یعقوب علی خان اور جنرل ٹکا خان نے ہاتھ کھڑے دئے تو مغربی پاکستان سے وہاں جانے کو کوئی جرنیل تیار نہ تھا کیونکہ نوشتہ دیوار پر لکھی واضح شکست ہر کسی کو نظر آ رہی تھی اور یہ عمل باعث شرمندگی افواج پاکستان کیلئے بن رہا تھا کہ اعلیٰ قیادت جنگ سے پہلے ہی حوصلہ ہار چکی ہے. اسی دوران سب سے جونیئر لیکن Most Decorated جنرل امیر عبداللہ خان نیازی نے رضاکارانہ طور پر اپنی خدمات کو پیش کیا جو فوراً قبول کر لی گئیں.. بلکل جیسے جنرل فخر الدین پاشا کو اس وقت مدینہ منورہ کا گورنر مقرر کیا گیا جبکہ حالات قابو سے نکل چکے تھے.
عام حالات میں بھی مشرقی پاکستان میں دو جنرلز تعینات ہوتے تھے اب اس کڑے وقت میں جنرل امیر عبداللہ خان نیازی تن تنہا وہاں جا پہنچے اور مشرقی پاکستان کے دگرگوں حالات کو قابو کرنے کی کوششیں شروع کردیں. لیکن کیونکہ اشرافیہ شاید ملک کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کا فیصلہ کر چکی تھی تبھی سیاسی معاملات ہاتھ سے نکل چکے تھے ہندوستانی افواج نے باقاعدہ حملے کرنا شروع کردیئے. جنرل امیر عبداللہ خان نیازی نے مغربی پاکستان میں بیٹھی اعلیٰ قیادت سے جارحانہ حملہ کرنے کی اجازت طلب کی گئی تو انھیں صرف اور صرف مدافعتی کارروائی کی اجازت دی گئی.. کیونکہ پاکستان کا ملٹری ڈاکٹرائن یہ تھا کہ مشرقی پاکستان کا دفاع مغربی پاکستان سے کیا جائے گا. جو کہ بعد میں ثابت ہوا کہ وہ انتہائی نامعقول نظریہ تھا…
بہرحال باقاعدہ جنگ شروع ہوگئی مغربی پاکستان مشرقی پاکستان کا دفاع تو دور مغربی پاکستان کا دفاع بھی بھرپور طریقے سے کرنے میں ناکام رہا. مشرقی پاکستان میں تازہ کمک، خوراک اور سپلائی لائن کی عدم دستیابی اور مکتی باہنی جیسے غدار باغیوں کی موثر کارروائیوں کی وجہ سے پاکستانی افواج ڈھاکہ میں محصور ہوچکی تھیں.
جیسا کہ اس وقت کا ہندوستانی آرمی چیف جنرل مانک شا کہتا ہے کہ مشرقی پاکستان میں فوجی قیادت (جنرل نیازی) نے لڑائی خوب لڑی لیکن اس کے پاس جیتنے کا کوئی چانس نہیں تھا کیونکہ اسکی افواج کو ہم نے چاروں طرف سے گھیر لیا تھا جبکہ عوام بھی انکے مخالف ہوچکی تھی.. پس صدر پاکستان و آرمی چیف جنرل یحییٰ خان کے حکم پر مزید جانوں کے بلاوجہ ضیاع کو بچانے کیلئے سرنڈر کے حکمنامہ پر عملدرآمد کرنے کا کہہ دیا گیا یوں جنرل امیر عبداللہ خان نیازی نے سولہ دسمبر کو سرنڈر کیا… حالانکہ جنرل نیازی تو سرنڈر سے دو دن پہلے ہی میڈیا میں سینہ ٹھونک کے کہہ چکے تھے کہ ہندوستانی ٹینک میری نعش سے گزر کر ڈھاکہ داخل ہونگے.لیکن جب اعلیٰ قیادت سے سرنڈر کا حکم موصول ہوا تو عملدرآمد ناگزیر تھا..
دونوں شخصیات بے مثال جرات و بہادری کی پیکر تھیں تبھی جنرل پاشا کو انگریز(Lion of the Desert) جبکہ جنرل نیازی کو (Tiger of the Bengal) ٹائیگر نیازی کہتے تھا..
کیونکہ پاکستان میں اقتدار انکو مل چکا تھا جو دراصل اس سانحہ کا ذمہ دار تھے تبھی انھوں نے حمودالرحمان کمیشن کے ذریعے اپنے وظیفہ خور لکھاریوں اور دانشوروں کے ذریعے پاکستانی افواج اور جنرل امیر عبداللہ خان نیازی کو خوب پامال کیا.. پس وہ جانتے تھے اگر عوام کے جذبات کا رخ کسی اور طرف نہ موڑا تو یقیناً عوام کے ہاتھ انکے گریبانوں تک پہنچ جائیں گے… یوں غلامی میں ڈوبی ذہنی آلودگی کا شکار قوم اس سانحہ کے مرکزی کرداروں کو بھول کر جنرل امیر عبداللہ خان نیازی کو مطعون کرنے لگ گئی جو سلسلہ ابھی تک جاری ہے..


حالانکہ رب العزت نے دکھا دیا کہ جو جو اس سانحے میں ملوث تھے انکو بھیانک موت سے دوچار کیا انکی نرینہ اولاد تک صفحہ ہستی سے مٹا دی خاندان تک انکے تباہ کردیئے. لیکن یہ اللہ تعالیٰ کی نشانیاں ہیں جو ہر کسی کیلئے نہیں بلکہ صرف عقل والوں کیلئے ہیں..
ضمناً کچھ نایاب معلومات بھی ان دونوں شخصیات کے بارے میں دیتے چلیں کہ جنرل فخر الدین پاشا 1922ء سے لیکر 1926ء تک افغانستان میں ترکی کے سفیر کے طور پر بھی تعینات رہے. جبکہ ستر کی دہائی تک کوئی بھی جنرل امیر عبداللہ خان نیازی کو سانحہ کا ذمہ دار قرار نہیں دیتا تھا ہر کوئی جنرل یحییٰ خان کو اس کا ذمہ دار قرار دیتا تھا جسکی وجہ سے جنرل یحییٰ خان کا اپنے گھر سے نکلنا دوبھر ہوگیا تھا جبکہ جنرل نیازی جب ہندوستان سے واپس آئے تو انھیں بھٹو حکومت نے زبردستی نظر بند کردیا گیا بعدازاں طویل نظر بندی کے خاتمے کے بعد انھوں نے جماعت عالیہ مجاہدین کے نام سے ایک سیاسی جماعت بنائی بھٹو کی خلاف شروع ہونے والی تحریک میں بھی فعل رہے اور مفتی محمود (فضل الرحمان کے والد) انکے بڑے زبردست حامی تھے اور جنرل نیازی عموماً مفتی محمود کے ہمراہ جلسوں اور ریلیوں میں شرکت کرتے تھے لوگ جنرل نیازی کی تقریروں کو خصوصی طور پر سننے کیلئے آتے اور مفتی محمود بھی اکثر انکے حق میں تقریریں کرتے تھے. اور کہتے تھے کہ بھٹو کی وجہ سے ملک دولخت ہوا..

تحریر و ترتیب؛ نیازی پٹھان قبیلہ فیس بک پیج

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں