لفظ “نیازی” کے بارے میں اکثر لوگ پوچھتے ہیں کہ اسکے کیا معنی ہیں.
جیسے دیگر پٹھان قبائل کے مآخذ بارے کوئی مستند معلومات دستیاب نہیں ہیں ویسے ہی نیازیوں کے بارے میں کوئی مستند معلومات دستیاب نہیں ہیں اور نہ ہی ان پٹھان قبائل کے ناموں بارے میں کوئی ٹھوس معلومات دستیاب ہیں. بس صرف قیاس آرائی سے کام لیا جاتا ہے.
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ فارسی کے لفظ “نیاز” سے نیازی یا نیازئی ہوا ہے. جسکا مطلب عاجزی، انکساری کے ہیں مزید یہ کہ یہ لفظ منت، بھینٹ کیلئے بھی استعمال ہوتا ہے. لیکن فارسی زبان میں ہی “نیازی” لفظ خود بھی موجود ہے جسکے معنی درخواست گزار یا التماس کنندہ کے ہیں.
جبکہ کچھ کے خیال میں یہ پشتو کے دو حروف “نیا زوئی” سے بنا ہے جسکے معنیٰ دادی کا پوتا یعنی دادی کا لاڈلہ.
مزید برآں کچھ لوگ اس کو پشتو کے لفظ نیاز سے جوڑتے ہیں جس کا مطلب ھے ” لاڈ پیار ” پشتو کہاوت ھے
” پیاز دے وی خو پہ نیاز دے وی “
مطلب روکھی سوکھی کھلا دو مگر پیار اور عزت سے کھلا دو
اسی طرح نیاز سے لفظ نیاز وُلے بنا ھے جس کا مطلب ھے چانجلا.
جبکہ ڈاکٹر لیاقت علی خان نیازی کے مطابق نیازی ترکی زبان کا لفظ ہے جسکے معنی ہیں بھڑکتی ہوئی آگ.
میرے خیال میں یہ لفظ ان سب باتوں سے بھی پرانا ہے.
وہ لوگ جو تاریخ کا گہرائی میں مطالعہ کرتے ہیں یا جنھوں نے اولف کیرو، بہادر شاہ ظفر کاکاخېل، بیلو اور سعد اللہ جان برق صاحب کی کتابیں پڑھی ہیں وہ لازمی طور پر ہیروڈوٹس کی نوشت سے بھی واقف ہونگے سفید ہن، ہفتالی، کیدارتھی، یوچی، ساکا، پارتھین، سئتھین وغیرہ بارے بھی پڑھا ہوگا…
تو ہم اس نقطہ نظر سے چل کر اس لفظ کی تلاش کرتے ہیں.
جیسا کہ ہم درج بالا مصنفین کی کتابوں دیکھتے ہیں کہ وہ کیسے اساپسی کو یوسفزئی، استاگیدے کو خٹک، اپریتے کو آفریدی، آرکوسیا کو کندھار، پکٹویس کو پشتون سے جا کر ملاتے ہیں ویسے ہی ہم خلجیوں کی بحث میں پڑھتے ہیں کہ یہ غلجی جن سے نیازیوں کا قریبی تعلق ہے کچھ کے نزدیک نیازی غلجی کے بھائی لودی کی اولاد ہیں تو کچھ لودیوں بشمول نیازیوں کو غلجیوں کی ہی شاخ قرار دیتے ہیں. افغانستان میں نیازی اپنے آپ کو ابدالی کے بجائے غلجیوں سے جوڑتے ہیں اسی علاقوں میں آباد ہیں جو غلجیوں سے منسوب ہیں. یہ غلجی لوگ موجودہ خطے میں قریباً چوتھی صدی عیسوی میں آئے اور یہ اپنے پیش رو ہفتالیوں کے مآخذ سے ہی آئے تھے. جبکہ ہفتالیوں کے پیش رو سفید ہن تھے. یہاں یہ بات بھی ذہن نشیں رہے کہ کچھ محققین موجود زمانے کے ابدالی (جو اب درانی بھی کہلاتے ہیں) کو انھی قدیم ہفتالی سے ملاتے ہیں. دونوں خلجی اور ہفتالیوں کے جد ایک ہی سفید ہن تھے. دونوں ہی خانہ بدوش تھے. اسی زمانے میں انھوں نے یہاں اپنے پیش رؤں ہفتالیوں کے ساتھ بودوباش اختیار کی اور اپنی چھوٹی چھوٹی ریاستیں بنا لیں . اسی زمانے میں ایک کا نام نیزک ہن” ریاست تھی جسکا زمانہ چھٹی ساتویں عیسوی کے” لگ بھگ ہے جسکے سکے دستیاب ہوئے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ انکا بادشاہ کا نام “نیزک شاہ” تھا..شاہ فارسی زبان کا لفظ ہے جو کہ حاکم، بادشاہ، فرمانرواء کا مترداف ہے۔ انھی کے ہم جد تھے الکون/الخون ہن جو کہ ان سےآگے بڑھ کر کشمیر اور شمالی پنجاب پر قابض ہوئے جنکا ایک مشہور بادشاہ کا نام مہرگُلا تھا جو بعد ازاں وہاں سے شکست کھا کر انھی نیازک ہنوں کے پاس آگئے یوں یہ ریاست آپس میں ضم ہوکر ترک شاہی کہلانے لگی پھر ترک شاہی ریاست پر زابلستان نامی ریاست ہفتالیوں نے قائم کرلی. اس کے بعد انھی نیازک ہنوں کے کچھ لوگ بلخ کی طرف چلے گئے جہاں انکا سامنا عرب مسلمانوں سے ہوا وہاں تر خان نیازک نامی سردار مارا گیا.(پشتونوں میں آج بھی نیازک نام کافی معروف ہے)۔جبکہ زابلستان کی حکومت کو ایرانی مسلمان یعقوب صفاری نے آٹھ سو عیسوی کے قریب ختم کیا پھر صفاریوں کا خاتمہ سامانیوں نے نو سو عیسوی میں کیا اور یوں سامانیوں سے غزنوی خاندان نویں صدی عیسوی تک اس خطے کا وارث بنا آگے آپ سب جانتے ہیں… یہ غزنوی خاندان بھی انھی ہنوں کی باقیات میں سے تھا جنھیں مورخین نے ترک بیان کیا ہے.مورخین بعد از مسیح کے زمانے میں افغانستان میں وارد ہونے والے تمام شمالی نوواردوں کو ہن سے ہی یاد کرتے ہیں.. سامانیوں کے زمانے سے ہی خلجی اور افغان نام سامنے آنا شروع ہوے جنکو غزنوی کے مؤرخ البیرونی اور العقبی نے بھی استعمال کیا…
اسی طرح ترک لفظ بھی کافی الجھا ہوا لفظ ہے جس پر بحث پھر کبھی…
ہم اپنے مرکزی موضوع پر پھر واپس آتے ہیں.
نیزک” لفظ پر محققین جب تحقیق کرتے ہیں تو یہ آراء قائم” ہوتی ہیں.
ماریا ملغدونہ تاتار کہتی ہیں کہ “نیزک” کا “نیازک” سے موازنہ کریں تو یہ ترکی زبان میں ایک لقب کے معنی میں آجاتا ہے جسکے معنی سامع یا سننے والا کے ہیں. اسکے مطابق سغدیانی آخری لفظ ک کو گ سے بھی بدل دیتے تھے اور نیازگ بن جاتا. جبکہ فرنٹز گرینٹ کے مطابق یہ بھی ممکن ہے کہ یہ قدیم فارسی کے لفظ” نیزگ” سے اخذ کردہ ہو جسکے معنی برچھا کے ہیں..
اب یہاں ایک چیز نوٹ کرنے کی ہے موجودہ فارسی کے لفظ نیازی کے معنی درخواست گزار کے ہیں جبکہ قدیم ترکی لفظ نیازک کے معنی درخواست سننے والے یعنی سامع کے ہیں. کیسا حسن اتفاق ہے….
سامعین کرام جیساکہ آپ جانتے ہیں کہ ہمارے پاس کوئی ٹھوس شواہد نہیں ہیں تبھی قیاسات کے گھوڑے دوڑا رہے ہیں. یہی کچھ قدیم تاریخ میں ہوتا ہے. کیونکہ باقاعدہ تاریخ نویسی کو شروع ہوئے ہزار سال بمشکل گزرے ہیں..
دستیاب مبہم نشانات پر ہی راستے تلاش کئے جاتے ہیں.
اب یہاں ایک نقطہ اہم ہے پشتو میں ایک لفظ ہے ږ اسکی شمالی پشتو میں آواز گ کی آتی ہے جبکہ جنوبی پشتو میں یہ ژ کی آواز دیتا ہے. نیازیوں کی بھی اصل پشتو جنوبی جس میں ژ کا استعمال ہوتا ہے. اگر ہم اسی نیازگ میں گ کی جگہ ژ استعمال کریں تو یہ “نیازژ” بن جائے گا جو شاید اجتماعی استعمال کیلئے نیازژ کی جگہ “نیازژی” سے نیازی امتداد زمانہ سے ہوگیا ہو. کیونکہ ژ اور ی کے صوتی اثرات میں یکسانیت پائی جاتی ہے.
مزید قدیم فارسی کے جس لفظ نیزگ کے معنی برچھا کے بتائے گئے ہیں وہ نیزگ آجکل نیزہ بن چکا ہے. الفاظ میں معمولی ردوبدل وقت کے ساتھ زبان کے اثرات سے پیدا ہوتا رہتا ہے…
اب ہم محققین کو ایک اور طرف بھی دعوت تحقیق دیتے ہیں” وہ ہے لفظ “نیاسا.
یہ قیاس آرائی اسکندر اعظم سے منسلک ایک واقعہ میں بیان کی جاتی ہے واقعہ یہ کہ اسکندر اعظم کے زمانے میں دریائے کابـل کے کنارےایک “نیاسا” نامی گاؤں آباد تھا. جسکی جگہ کا تعین محققین نے موجودہ باچا خان یونیورسٹی چارسدہ سے قریب واقع گاؤں نیستہ پر کیا ہے. کہا جاتا ہے کہ جب اسکندر اعظم ہندوستان پر حملہ کیلئے جارہا تھا تو اس گاؤں کے سردار اکپیس نے اپنے ساتھ تیس کڑیل نوجوانوں کا اسلحہ بند دستہ لیا اور اسکندر کے کمیپ میں جا پہنچا جہاں اسکو سلام کیا اور اسکو کہا کہ یہ بستی یونانی دیوتا دیانوسس نے یونان جاتے ہوئے بسائی تھی تمھیں اگر یاد ہو تو (دیانوسس دیوتا کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ وسطیٰ ایشیا سے یونان گیا تھا جس جگہ سے اس کا تعلق تھا اسکو “نیسی” کہتے تھے اسی سے نیاسا نامی آبادیاں بسائیں) پس ہمیں بخش دو جیسا کہ تم جگہ جگہ اپنے نام سے اسکندریہ شہر بساتے چلے آرہے ہو یہ بھی ویسے ہی دیوتا دیانوسس کی یادگار ہے.
اسطرح اسکندر اعظم نے اس بستی کو تباہ نہ کیا بلکہ ان سے بدلے میں عسکری کمک مانگ لی جو انھوں نے دی.. شاید یہی لفظ نیاسا سے نیاسی اور پھر نیازی میں بدل گیا ہو.
اب یہاں یہ بات تحقیق کو دعوت دیتی ہے کہ اس واقعہ کے قریب نو سو سال بعد اسی خطہ کے حکمران الکون/الخون ہن واپس نیزک شاہ کے پاس غزنی پناہ گزین ہوئے. کیونکہ الکون اور نیزک آپس میں تعلق دار تھے..
لفظ نیازی کے بارے میں درج بالا قیاسات کو اکٹھا کرنا اور ترتیب دینے کا مقصد یہ ہے کہ تاکہ دلچسپی رکھنے والے محققین اس سمتوں پر اپنی تحقیق کو بڑھا سکیں اور اس میں مزید گہرائی اور وست پیدا کرکے اصل مطلب تک پہن سکیں…
واللہ اعلم بالصواب