قلم کی کاٹ اور داؤد خان پنی کا بدلہ۔



سال سن ہجری 1066عیسوی 56-1655میں شہنشاہِ ہند شاہجہان بادشاہ نے اپنے بیٹے شہزادہ محمد اورنگ زیب بہادر کو دکن کا وائسرائے مقرر کیا ۔شہزادہ احمد نگر یا عمدہ نگر جا پہنچا یہاں بہلول خان پنی میانہ افغان جو تب بادشاہ شاہجہان کی ملازمت میں آچکا تھا بیجا پور سے شہزادہ اورنگ زیب بہادر کی خدمت میں آن حاضر ہوا۔اسی فوجی کیمپ میں خضر خان بار و زئ پنی افغان اورنگ زیب کی سپاہ میں دوہزاری کے منصب پر فائز تھا۔بہلول خان اور خضر خان دونوں کے باپ دادے کا وطن ایک تھا وہ پڑوسی تھے اور ہم جماعت تھے،آپس میں کئی سال بعد ملے جس پر وہ بہت خوش تھے یہاں تک کہ بہلول خان پنی نے اپنا خیمہ بھی اپنے دوست خضر خان پنی کے ساتھ لگوا لیا اور وہ اپنے وطن کی پرانی یادیں اور بچپن کو یاد کرکے خوش ہوتے رہے۔بہلول خان پنی کا دربار شاہی میں کافی لحاظ کیا جاتا تھا وہ اپنے دوست خضر خان کی ترقی کے لئے وزیرِ سلطنت خانِ خانان شائشتہ خان سے جا ملا اور اپنے دوست کی ترقی کی سفارش کی جسے مانتے ہوئے خانِ خانان نے بیجاپور کے سابق چھتری حکمرانوں کی تینتالیس لاکھ سالانہ کی آمدن والی قیمتی جاگیر بمعہ چالیس ہزار روپے نقد خضر خان کے نام کیے ۔بہلول خان خوش ہو کر اپنے دوست کی جاگیر پر کچھ دنوں جا رہا اورپھرشاہ نور میں اپنی جاگیرپر بیجا پور واپس آگیا ۔بعد میں شاہجہان بادشاہ کی زندگی ہی میں اس کے بیٹوں کے درمیان تخت نشینی پر خانہ جنگی شروع ہو گئی۔جسمیں بڑے قتل مقاتلے ہوئے اور باالآخر شہزادہ اورنگ زیب ،محی الدین اورنگ زیب عالمگیر کے نام سے ہندوستان کا بادشاہ بن بیٹھا۔
ہجری سال 1097عیسوی سال 1686عادل شاہی بیجا پور ریاست بہمنی پر محی الدین اورنگ زیب عالمگیر بادشاہ ہند کو فتح نصیب ہوئی اور اس نے آن کر حیدر آباد دکن میں قیام کیا۔یہاں پر اُس نے خضر خان بار و زئ پنی کو حیدر آباد بلا بھیجا جب وہ حیدر آباد شہر کے بھڑکل نامی بڑے دروازے پر پہنچا تھا کہ اوپر سے ایک مقامی دکنی امیر پانچ ہزاری منہاج شیخ دکنی کی سواری بھی عین اسی وقت بھڑکل دروازے آن پہنچی اب خضر خان اور منہاج شیخ کے درمیان دروازے میں پہلے داخل ہونے پر تو تکار شروع ہو گئی ۔دکنی امیر بڑا غصہ ور اور مغرور جھگڑالو قسم کا امیر تھا ،اُس نے خضر خان کوچھرا مار کےموقع پر ہی مار دیا۔
یہ افسوسناک بری خبر بادشاہ تک اور خضرخان پنی کے بیٹے داؤد خان پنی تک جو اُس وقت کرناٹک پائیں و بالادونوں کا صوبے دار تھاجا پہنچی، تو وہ اپنی پانچ سو افغان سپاہ کے ساتھ اپنے باپ کے قتل کا بدلہ لینے کے لئے حیدر آباد دکن آن پہنچا اگرچہ اِس بات میں بادشاہ کی ناراضگی کا ڈر تھا اور اورنگ زیب عالمگیر نے اسلیے داؤد خان پنی کو کسی انکوائری میں کسی فیصلے پر پہنچنے سے قبل قانون کو ہاتھ میں لینے سے روک دیاادھر دکنی امیر بھی ایک کایاں اور ہوشیار تھا،اس کے پاس بہت بڑی فوج تھی داؤد خان اسکی تاک میں لگا رہا مگر اسے موقع نہیں مل رہا تھا کہ ایک دن اچانک یہی منہاج شیخ دکنی امیر جب اپنی فوج کا حساب کتاب لیتے ہوئے اپنے سامنے بیٹھے ہوئے منشی کی کسی غلطی پر غصے میں آکراُسے گالیاں دینا شروع کر دی اور مارنے کے لئےمنشی پر چھپٹا کہ منشی کے ہاتھ میں پکڑی ہوئی قلم کی نوک منہاج شیخ دکنی امیر کے پہلو میں گھس گئی جس کے زخم سے وہ تین دنوں کے اندر اندر مر گیا۔ایک بے گناہ کے قتل کا بدلہ تلوار کی بجائے اور داؤد خان کے ہاتھوں کی بجائے قلم کی نوک کی کاٹ سے پورا ہو گیا۔ جو چپ رہے گی زبانِ خنجر تو لہو پکارے گا آستیں کا ۔
تحریر:فیروز شاہ صاحب

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں