فتح خان نیازی کی دلیری۔۔۔


فتح خان نیازی جوکہ مسند اعلیٰ عیسٰی خان نیازی کے بھائی اور شیر خان نیازی کے بیٹے تھے۔شیر شاہ سور کے معتمد ساتھیوں میں شمار ہوتے تھے۔

افسانہ شاہان میں درج ہے کہ۔۔۔

کہتےہیں کہ میاں فتح خان نیازی اورمیاں عیسی خان نیازی دونوں شیرخان نیازی کے بیٹے تھے اوربہت بہادر پٹھان تھے اور اعظم ہمایون نیازی کےپانچ بھائی تھے جومیاں میرداد کےبیٹے تھے اور میاں فتح خان وعیسی خان دوبرادر جو شیرشاہ کے دربار میں جگہ پاگیے تھے اتنی مقدارکاعہدہ میاں اعظم ہمایوں نے اپنے پانچ بھائیوں کے ساتھ پایاتھا ایک روز شیرشاہ اپنے چندافغانوں کےساتھ اپنے لشکرکےارد گرد گھوم رہاتھا کہ مغل بادشاہ ہمایوں کے سپاہیوں نے تیراندازی شروع کردی اور جو پیادے شیرشاہ کےلشکرسے باہرتھےان کوتیروں سےمارناشروع کیا اسی دوران شیرشاہ کےاوپر ہمایوں کی طاقتور فوج چڑھ آئی چنانچہ شیرشاہ نے سپاہیوں کواپنی فوج میں دوڑایا کہ تم لوگ کیاسورہےہو یہاں جنگ ہورہی ہے جو سپاہی یہ خبردینےگیاتھا اس نےدیکھا کہ میاں فتح خان نیازی چلا آرہاہے اس سپاہی نےکہا تم کیا آہستہ آہستہ آرہے ہو یہاں شیرشاہ پرمصیبت پڑی ہے اس دوران عیسی خان نیازی از راہ تمسخر کہا یہ آدمی کہاں جارہاہے جب اسنے سپاہی کودیکھا کہ آواز لگاتاہوا جارہاہےآخرجب فتح خان نیازی شیرشاہ کے پاس پہونچا تو پوچھا یہ کیاشورشرابہ ہے اس پرشیرشاہ نے اسے گالی دیتے ہوئے کہا ہم توحیرت زدہ کھڑےہیں اور تم لوگ سوئے پڑےہو شیرشاہ کی یہ عادت تھی کہ وہ اپنے درباریوں کوپشتو میں گالیاں دیتاتھا فتح خان نیازی نے شیرشاہ سے غصہ میں کہا کہ یہی گالی اس پرہے جو تمہیں اب اپنی شکل دکھائے یہ کہا اور گھوڑے کوچابک مارا اور ہمایوں بادشاہ کےلشکر پر حملہ آور ہوکر غنیم کی فوج تہس نہس کردی یوں بہادری سے وہاں لڑتا ہوا ماراگیا آخرہر طرف سے لشکری اکرشیرشاہ کےپاس کھڑے ہوگیے کیونکہ شیر شاہ کو فتح حاصل ہوگئی. عیسی خان نیازی نے قسم کھائی کہ جب تک فتح خان نیازی کی لاش لیکر نہیں اوں گا یہاں سے نہیں جاوں گا اس دوران اعظم ہمایوں نیازی بھی آگیا یہ دونوں ہم جد تھے لہذا سارےنیازی پشتون جمع ہوکراس جکہ چلےگیے جہاں جنگ دیدہ دلیر فتح خان نیازی کی لاش پڑی تھی ۔لیکن چونکہ لاش کا سر کٹا ہوا تھا شناخت واضح نہیں ہورہی تھی۔اتنے اعظم ہمایوں نیازی بولے کہ میں اور فتح خان بچپن میں کشتی کرتے تھے ،فتح خان کی ران پر زخم کا نشان تھا۔اگر ازار چاک کرکے دیکھ لیا جائے تو اس زخم سے شناخت ہوجائے گی۔آخر لاش کو ڈھونڈھ کر واپس لے کر آئے تو شیر شاہ سوری نے ماتھے پر بوسہ دیا اور لحد میں اتار۔ شیر شاہ سور نے لواحقین سے التماس کی کہ وہ ماتم ابھی نہ کریں وگرنہ ہمایوں بادشاہ کو پتہ چل جائے گا کہ شیر شاہ کا ایک بڑا سردار مارا گیا ہے اور لشکر کا حوصلہ پست ہوجائے گا۔۔

حوالہ: افسانہ شاہان صفحہ نمبر 243

تحریر و ترتیب: سرہنگ نیازی

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں