مرد میدان، مقابل بحران۔۔۔
ہمارے ہاں دوطرح کے لوگ پائے جاتے ہیں ایک وہ جواپنے عہدے اورعہد پربوجھ ہوتے ہیں اوردوسرے وہ جن کیلئے عہدہ ایک بوجھ ہوتاہے تاہم عہدحاضر میں دوسری قسم کے لوگ ناپیدہیں۔تخت وتاج سے بے نیازکچھ لوگ اپنے مزاج کے حوالے سے شہنشاہ ہوتے ہیں خواہ وہ وحدت روڈپر دس مرلے کے کوارٹرمیں کیوں نہ رہتے ہوں اورکچھ لوگ فطری طورپربھکاری ہوتے اوردوسروں کے مال کومیلی نگاہ سے دیکھتے ہیں خواہ وہ بڑے بڑے محلات میں رہتے ہوں،ڈاکٹراجمل نیازی ایک درویش اوردبنگ انسان ہے۔ان میں مدبراورمقررکے تمام اوصاف پائے جاتے ہیں ،آپ کوان کی تحریروں اور تقریروں میں مولاناعبدالستارخان نیازی کی سوچ اورمنفرداسلوب کے شاعر منیرنیازی کی خوشبوملے گی،سرکار ی ملازمت ان کیلئے بوجھ بن گئی تھی جوانہوں نے اپنے کندھوں سے اتاردیا،اب بھی وہ بے نیازی اوربیقراری سے لکھتے ہیں اورانہیں پڑھنے والے سرشاری کی کیفیت میں چلے جاتے ہیں ۔ بزرگ سیاستدان معراج خالد مرحوم کیلئے وزارت عظمیٰ کامنصب بلاشبہ بوجھ تھا جبکہ ان کے بعدآنیوالے کئی وزرائے اعظم اس آئینی عہدے کیلئے کسی بوجھ کی طرح تھے۔ کچھ محب وطن لوگ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کوصدرمملکت بنانا چاہتے تھے ،لیکن میں پورے وثوق سے کہتا ہوں اگروہ صدرمملکت منتخب ہوجاتے توصدارت کامنصب ان کیلئے ایک بھاری بوجھ بن جاتا…
آج یکم فروری چونکہ جنرل امیر عبداللہ نیازی صاحب کا یوم وفات ہے. پس اسی سلسلے میں یہ تحریر لکھی..
ہرباشعور انسان جانتا ہے 1971ءکاسانحہ سیاسی قیادت کے بلنڈرکاشاخسانہ تھاجبکہ سرنڈرکرنے کافیصلہ بھی ٹائیگر نیازی کانہیں کسی اورکاتھا کیونکہ ٹائیگرسرنڈرنہیں کیا کرتے ورنہ مسلم لیگ (ن) کے قائدمیاں نوازشریف کوٹائیگرکے لقب سے پکاراجاتااورنہ ان کاانتخابی نشان ٹائیگر ہوتا،میاں نوازشریف کوبھی پرویزمشرف کے کارگل ایڈونچر کی آگ بجھانے کیلئے امریکہ جاناپڑاتھا ،ضرورت پڑنے پرمحفوظ راستہ تلاش یااختیار کرنابزدلی نہیں ہوتی۔شہنشاہ ہند جارج ششم نے بذات خود جنرل امیرعبداللہ خان نیازی کی بہادری اورپیشہ ورانہ مہارت کودیکھتے ہوئے انہیں ٹائیگرنیازی کاخطاب دیا تھا یہ کوئی معمولی بات نہیں تھی یہ اعزاز جنگ عظیم دوئم میں صرف دو ہندوستانی فوجیوں کو ملا جن میں سے ایک جنرل ٹائیگر نیازی تھے. ورنہ ہمارے ہاں توبعض کرایہ کے لفافی کالم نگار و صحافی سیاستدانوں کو ٹیپوسلطان اورشیرشاہ سوری بنا دیتے ہیں ۔جنرل اے اے کے نیازی واقعی مردمیدان اور غازی ہونے کے ساتھ ساتھ ٹائیگرکی طرح بہادر،نڈراورملک دشمنوں کیلئے بے رحم تھے ۔سانحہ سقوط ڈھاکہ کی سازش کے پیچھے صرف بھارت نہیں بلکہ پوری شیطانی تکون ملوث تھی۔ اس بدترین ناکامی اوربدنامی کے پیچھے فوج نہیں نااہل سیاسی قیادت کاہاتھ تھا ۔اس وقت جنرل یحییٰ خان پاکستان کے آئینی سربراہ اور افواج پاکستان کے کمانڈران چیف تھے۔
،اگراس وقت پاکستان اورافواج پاکستان کی باگ ڈورکسی ہوشمند شخص کے ہاتھوں میں ہوتی توہمیں یوں خفت اورشکست کاسامنا نہ کرناپڑتا۔جب تمام فوجی جرنیلوں نے اس بھاری بھرکم ذمہ داری کو اٹھانے سے ہاتھ کھڑے کردیئے اور جنگ لڑنے سے پہلے ہی سرنڈر کردیا تو اس مرد مومن نے خود کو رضا کارانہ طور پر پیش کردیا جو کہ اس ملک و ملت پر ایک بے دریغ قربانی تھی… جب جنرل یحییٰ خان نے انھیں سرنڈر کا حکم دیا تو اب ظاہر ہے پاکستان کاکمانڈران چیف توخودسرنڈر کرنے کیلئے نہیں جاسکتا تھا،لہٰذااس شرمناک تقریب میں جانے کیلئے ایک مضبوط اعصاب والے نڈراورغیرمعمولی انسان کی ضرورت تھی جومردانہ وار اس کٹھن صورتحال کاسامنا کرتا. اس کیلئے جنرل گل حسن، جنرل حمید خان یا جنرل ٹکا خان جیسے سینئر کو بھجیا جا سکتا تھا لیکن انھوں نے اس کڑے وقت میں ایک بار پھر آنکھیں پھیر لیں. کیونکہ کوئی جرنیل وہاں جانے کیلئے تیار نہیں تھا اورہمارا ملک اس نازک معاملے میں مزیددیرکامتحمل نہیں ہوسکتا تھا۔ہزاروں زندگیاں اورہزاروں خاندانوں کی خوشیاں خطرے میں تھیں ،اس کڑے وقت میں جنرل اے اے کے نیازی یعنی ٹائیگرنیازی نے قربانی دینے کافیصلہ کیااورانہوں نے ملک وقوم کا وقاربچانے کیلئے اپناسب کچھ داﺅپرلگادیا۔ٹائیگرنیازی کومیدان جنگ سے گرفتار نہیں کیا گیا بلکہ انہیں خصوصی طورپرایک حکمت عملی کے تحت سرنڈرکرنے کی رسمی کاروائی کیلئے وہاں بھیجاگیا تھا۔ا نسان اپنے اقتدارنہیں بلکہ کرداراورافکار کی بنیاد پرباوقارہوتا ہے،جولوگ پاکستان کے بانی محمدعلی جناح ؒ کااحترام نہیں کرتے وہ ٹائیگرنیازی کی تعظیم کس طرح کرسکتے ہیں۔جو لوگ دوسروں کی غلطی یاناکامی کابوجھ اپنے کندھوں پراٹھاتے ہیں وہ بزدل نہیںبہادرہوتے ہیں، ٹائیگرنیازی کے کردارپرانگلی اٹھانے والے تاریخ کومسخ نہیں کرسکتے۔بدقسمتی سے ہم اپنے اورخاص اپنوں کے سوادوسروں کوغدارڈکلیئرکرنے میں کوئی شرم یا ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے۔پاکستان اوراس کے لوگ ٹائیگرنیازی کے مقروض اوراحسان مندہیں۔ جس معاشرے میں اپنے کسی قومی ہیرواورمحسن کے ساتھ توہین آمیزرویہ اختیار کیا جاتا وہ شہرخموشاں بن جاتا ہیں۔پاکستان کی تاریخ کے بیشتر سرنڈراوربلنڈرسیاستدانوں سے منسوب ہیں۔ہمارے منتخب سیاسی حکمرانوں نے کئی بار امریکہ کے سامنے سرنڈرکیااوریوٹرن لیا۔9/11کے بعد امریکہ کے ایک وزیرکی ایک فون کال پرقوم کومکے دکھانے والے فوجی آمرپرویز مشرف نے پاکستان کی خودمختاری اورحاکمیت اعلیٰ سرنڈرکردی، یہ ہیں ہمارے نواز شریف سیاستدان جو اپنی جان بچانے کیلئے سرنڈراور بلنڈرکر تے ہوئے اپنے ملک اورعوام کوایک بدمست اوربے لگام فوجی آمرکے رحم وکرم پرچھوڑکر ملک سے باہرچلے گئے جبکہ ان کے ساتھی جیل کی کال کوٹھڑیوں میں سڑتے رہے. اور اب ایک بار پھر میدان سے پیٹھ پھیر کر سرنڈر کرکے بھگوڑے بنے ہوئے ہیں…
دو ہزار گیارہ میں صدر آصف علی زرداری نے پاکستان کی خودمختاری سرنڈر کردی اور بے شرمی و ڈھٹائی سے بارک اوباما کو مبارکی کا فون بھی کر ڈالا.. اس رات کے بارے میں بارک اوباما آپنی کتاب میں لکھتا ہے کہ ہمارے لئے وہ رات بہت بھیانک تھی ہم سہمے ہوئے تھے کہ پتہ نہیں پاکستان کیا جوابی کارروائی کرے گا اور ہمارا کیا بنے گا. لیکن جب یوسف رضا گیلانی کی کال آئی تو صورتحال ہی یکسر مختلف تھی…..
مولانا فضل الرحمن دوہزار انیس دھرنا دینے آئے تو عاصمہ شیرازی کو انٹرویو میں کہتے ہیں کہ میں سرنڈر نہیں کروں گا استعفیٰ لے کر جاؤں گا پھر دنیا دیکھے گجرات کے چوہدریوں کے پاؤں پکڑ کر اپنی جان کی خلاصی کرائی…
یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے عہدوں پر بوجھ ہیں اور انکی وجہ سے ملک تباہی و بردبادی کا شکار ہے…
غازی جنرل ٹائیگر نیازی کے بارے میں ابتدائی بات پر ہی اختتام کروں گا کہ انھوں نے عین اپنے عروج کے زمانے میں ایک ایسی ذمہ داری اٹھانے کیلئے اپنے کندھے آگے کئے کے جنکا بوجھ اٹھانا اُن پر نہیں انکے سینئر جنرلز پر لازم تھا لیکن مملکت خداداد کی محبت اور پیدائشی ان میں رچی بلا کی خود اعتمادی نے انھیں اس بوجھ کو اٹھانے پر مجبور کردیا وہ نظر آنے والی واضح شکست کے باوجود اس میدان میں جا اترے….
گِرو تو ساتھ گِرے شانِ شہسواری بھی
۔۔زوال آئے تو پورے کمال میں آئے
تحریر و ترتیب: سرہنگ نیازی