شکردرہ کی سرزمیں کے تین سیبوں کا قصہ۔۔۔



اپنے کالاباغ سےذرا آگے ضلع کوہاٹ میں جانبِ شمال مغرب شکردرہ کا علاقہ شروع ہو جاتا ہے ۔کالا باغ سے اوپر تک اعوانوں کے علاقوں کے اندر ایک پوری پٹی خٹک افغان پٹھانوں ساغری و منگلی و بانگی خیل (کرلانی)قبائل کا وطن ہے ۔ تاریخ میں خوشحال خان خٹک اس اعلیٰ و خوبصورت خٹک قوم کا ایک غیرت مند سردار ہو گزرا ہےیہ مغل عظیم بادشاہ اورنگ زیب عالمگیر کا دور تھا ۔موجودہ صوبہ کے پی کے میں خوشحال گڑھ نام کے ریلوے اسٹیشن اور اسی نام کی ایک ریل گاڑی خوشحال ایکسپریس جو کے پی کے سے کراچی کوچلتی ہے ، اِسی شاعرو ادیب خوشحال خان خٹک سردار کے نام کی یاد گار ہیں ۔حریت پسند خوشحال خان خٹک جب مغل شاہی سے بغاوت پر مجبور ہو ا تو شہنشاہِ ہند اورنگ زیب عالمگیر نے اُسے ہندوستان میں قلعہ اسیر گڑھ میں قید کر دیا تھا اِن ہی زمانوں کا ذکر خوشحال خان خٹک نے اپنی نظموں میں کیا ہے اورا پنے وطن اور قوم کے دکھ درد کو ان میں سمو کر انہیں یادگاربنا دیا ۔اوراپنے وطن کی نیلی پہاڑیوں کی حسین وادیوں کے باسی غریب پٹھانوں کی بہادری کی روایات او ر اِن کی غربت و افلاس پر آنسوؤں کی جھڑیاں بہا کر رکھ دیں جو اِس کی قلبی واردات کی گواہی دیتی ہیں اور خوشحال خان کی غیرت و حمیت کو ظاہر کرتی ہیں ۔ وہ اپنی خٹک قوم کے محنت کش پٹھانوں کو غیرت سے زندہ رہنے کا سبق دیتا ہے اور بڑے فخر سے اپنی دلیر قوم کے بارے میں پوری دنیا کو آگاہ کرتا ہے ۔کہتے ہیں “تاریخ خود کو دہراتی ہے مگر کسی اور وقت کسی اور طرح سے نئے کرداروں کی شکل میں” ۔شہنشاہ اورنگ زیب کا بیٹا بہادر شاہ اب کابل کا گورنر ہے۔اِدھر خوشحال خان خٹک کا پوتا افضل خان(1701) اِس دور میں خٹک قوم کا سردار ہے ۔ مغل شہزادہ گورنر کابل بہادر شاہ بن شہنشاہ اورنگ زیب عالمگیر (1702- 1700) اِن ہی خٹکوں کے علاقے میں آتا ہے کیونکہ یہاں کے قبائل وادیء تیرا ہ میں بغاوت پھیل چکی ہوتی ہے اور مغل افواج وادیء تیراہ کے علاقوں بنگش ، کوہاٹ ، ہنگو ، بنوں ، عیسیٰ خیل اور قمر مشانی اور چاپری تک ہر جگہ پھیل کر باغیوں کی سرکوبی کے لئے مصروف ِ کارتھیں ۔ یہی وقت ہے کہ مغل گورنر بہادر شاہ نے خوشحال خان خٹک کے پوتے افضل خان خٹک کو اہم خدمات سپرد کرنے کے لئے شرفِ باریابی بخشتا ہے تاکہ اُس کے تعاون سے اپنے مقاصد اور فوجی اہداف کو حاصل کر سکے۔اگرچہ اِس وقت افضل خان خود اپنےچچا بہرام خان سے نالاں ہو کر ایک خانہ جنگی اور اختلافات میں پھنسا تھا ۔ مگر مغل بادشاہ سے وہ دلی خلوص رکھتا تھا۔ بادشاہ اور افضل خٹک کی ملاقات تب کے دور کے باغِ اعواناں یعنی موجودہ کالا باغ کے گردونواح میں کہیں شکردرہ کے علاقے میں ایک فوجی کیمپ بمقام ہنگو میں ہوتی ہے ۔افضل خان اپنے دادا کی طرح پڑھا لکھا سردار تھا اُس کی تصنیف تاریخ موروثہ کا وہ مصنف تھا جب مغل شہزادہ بہادر شاہ بن اورنگ زیب عالم عالمگیر سے افضل خان کی ملاقات ہوتی ہے تو بادشاہ اِسکی اپنی خٹک قوم کے بارے میں معلومات اور اپنی قوم کے لئے دل میں درد اور مسائل کے ادراک سے بڑا متاثر ہوا ۔اِسی دورمیں بادشاہِ ہند نے افضل خان کواُس کی خدمات کی بجا آوری پر موجودہ کالاباغ اسٹیٹ کا علاقہ بطور ِ جاگیر عطا کر دیاتھا۔

شکردرہ
شکر درہ


شہزادہ ء معظم بہادر شاہ کو اپنے پردادا جہان گیر بادشاہ کی تزک جہانگیری میں شکردرہ میں سیبوں کے تین درخت اور ہر درخت پر سیبوں کے تین دانوں کے پیدا ہونے کا قصہ یاد آیا تو اس نے خٹک سردار افضل خان سے اس قصے کی تصدیق چاہی تو افضل خان نے ایسے درختوں اور سیبوں کے قصے کی تصدیق کی اور ایسے تین سیب شہزادے کو سوغات میں بھیجنے کا وعدہ بھی کر دیا اور سیب شاہی مطبخ خقانے میں لا کر بادشاہ کے نوشِ جان کرنے کے لئے جمع کروا دیے یہ صرف تین سیب تھے جو سردار کو ملے تھے اِن تین سیبوں کی رنگت وخوشبونے شہزادہ کو حیران کیا اور کھانے پر ان کے میٹھے رسدار ذائقے سے انتہائی لطف اندوز ہونے کا ذکر کیا کہ زندگی میں ایسا پھل پہلے کبھی نہ کھایا تھا ۔ شہزادہ نے افضل خان کو بتایا کہ ان درختوں اور سیبوں کا ذکر انکے پردادا جہانگیر بادشاہ اپنی تزک جہانگیری میں کر چکے ہیں ، آج اسکی تصدیق بھی ہو گئی ، “اے خٹک سردار افضل خان! شہزادہ بہادر شاہ بولا یہ تین سیب جو تم نے ہمارے لیے بھجوائے ، تم نے انہیں کہاں سے حاصل کیا تھا “؟ افضل خان خٹک سردار نے جواب دیا حضور یہ میرے اپنے ہی علاقے شکر درہ کے ایک درخت کا پھل ہیں جنہیں میں نے آپ کے سامنے پیش کر دیا اِ ن سیبوں کی خاص بات یہ ے کہ اِن کے یہاں صرف تین درخت ہیں اور ہرسال ہر درخت پر صرف تین ہی سیب لگتے ہیں اِنکی یہی تاریخ چلی آتی ہے اس پر شہزادہ بہادر شاہ نے خٹک کو بتایا کہ میرے پردادا جہانگیر بادشاہ نے شکر درہ کے ان تین درختوں اور ان پر ہونے والے تین تین سیبوں کا ذکر اپنی تزکِ جہانگیری میں کیا ہے ۔ مغل شہزادہ گورنر کابل بہادر شاہ نے کہا بلاشبہ یہ سیب دنیا کی ایک نادر چیز ہیں جو میں نے اپنی زندگی میں نہ دیکھی نہ چکھی تھی ۔ بادشاہ بولا افضل خان یہ محض تین ہی درخت ہیں ؟ اور ہر ایک پر پورے سال میں صرف تین تین دانوں کا لگنا ، یہ کیا راز ہے ؟ میرے لیے تو یہ اچنبھا ہے ، کیا درختوں کی تعداد کو اور اِن کے اوپر لگنے والے پھل کو نئے درخت لگا کر بڑھایانہیں جا سکتا ! اور اِس کا بیج محفوظ نہیں کیا جا سکتا !افضل خان بولے ، جہاں پناہ میں اِس کا پہلے تجربہ کر چکا ہوں اور ناکام ہوا ہوں افسوس کہ نہ تو اِن درختوں کے پھل میں اضافہ ہوتا ہے اور نہ ہی کوئی نیا درخت اگتا ہے ۔بادشاہ نے کہا میری خواہش ہے کہ اِن درختوں کی تعداد میں اضافہ ہو اور ان کے پھل میں بھی ،آج سے میں اِن درختوں کے علاقے کو شاہی زمین میں شمار کرنے کا خکم دیتا ہوں اور اِس پر نئے درختوں کی کاشت کی جائے گی ۔
اِس لحاظ سے شکر درہ اِن تین شکری ذائقہ کے نادر سیبوں کا دیس تو کہلایا مگر کسی نئے باغ کے لگنے کے بارے میں تاریخ خاموش ہے ۔ ہمارے ہی علاقے کے تاریخ دان نے اپنی کتاب میں اِس شکر درہ کو اِسکی وجہء تسمیہ “شُتر درہ” یعنی اونٹوں کی سر زمین لکھا ہے جو محض اُس کی ذہنی اڑان ہے

کاغذی پیکرِ تصویر
کیا چلتے پھرتے گوشت پوست کے آدمی بھی کبھی کاغذی کہلا سکتے ہیں؟جی ہاںبالکل،کاغذی/ساغری لوگ ضلع کوہاٹ میں پٹھانوں کی ایک پوری قوم ہے جو پچھلے نصف ہزار سال سےکوہاٹ میں آباد چلی آرہی ہے۔اِن کے دیس میں بہنے والے دریا کو بھی دریائے کاغذی/ساغری/ساگری (ساگر سے ) ہی کہتے ہیں ۔یا تو اس قوم کاغذی کی وجہ سے یا پھر دریائے کاغذی کی وجہ سے اس کے کنارے آباد یہ لوگ کاغذی کہلاتے ہیں یہاں ہمارے گہرے منطقی فلسفی شاعر حضرت چچا جان اسداللہ خان غالب کا یہ شعر مجھے کچھ برموقع سا لگتا ہے:
نقش فریادی ہے کس کی شوخی ء تحریر کا
کاغذی ہے پیرہن ہر پیکرِ تصویر کا
تو یہاں لفظ کاغذی پر ہمارا زور ہے ۔اقوامِ بنگشات بالا و پائیں کے یہ کاغذی ہمارے ہی ضلع میانوالی کے شمال مغربی کونے میں پار اُروار رہتے ہیں ۔ہمارے بنہے سوانندری بھائی ہیں ۔میانوالی کی شمالی ایم این اے 71 اسمبلی کی سیٹ سے جہاں سے عمران خان پہلی مرتبہ الیکشن لڑ کر قومی اسمبلی کے ممبر بنے تھے ،کاغذی اُن کے ووٹر ہیں۔نواب محسن علی خان جو خٹک نواب علی قلی خان کے پوتے جا لگتے ہیں انہوں نے عمران خان کے ایک جلسے میں یہ بات کہی تھی کہ اے میانوالی والو! ایک مرتبہ تم عمران خان کو اپنے یہاں سے قومی اسمبلی کا ممبر چنوا دو پھر آگے عمران کو وزیرِ اعظم بنانا ہم خٹکوں کا کام ہے ۔ایک لحاظ سے عمران خان کا آدھا کام تو ہو گیا کہ سرحد صوبے کی حکومت اُس کے پاس ہے البتہ آدھا باقی ہے۔گھوڑا کاغذی ہو یا شطرنج کی بساط کا گھوڑا ہودونوں کا حال ایک ہی ہوتا ہےکہ جیسے وہ خیال کسی کا ہوا ور اسے سوچتا کوئی اور ہو۔کاغذی ٹھوک بجا کر پٹھان ہیں ۔تاریخ کا ایک وہ زمانہ بھی گزرا ہے جب میانوالی کچھی کہلاتا تھا اور مشرق کی جانب سے آئی ہوئی گکھڑ قوم یہاں پر آباد تھی کہتے ہیں اسی شکردرہ کوہاٹ کے ورےکہیں گکھڑوں کا تعمیر کردہ قلعہ معظم خان گکھڑ سردار کے نام پرمعظم نگر کا مضبوط قلعہ تعمیر کیا گیا تھا جسے افغانستان کے بادشاہ احمد شاہ ابدالی نے سترہویں صدی میں ہندوستان پر حملہ کرتے وقت اسے تباہ کر دیا تھا ۔اس سے کہیں پہلے پندرہویں صدی میں جب بنگال کے ایک افغان سردار فرید خان المشہور بہ شیر شاہ سوری نے مغل بادشاہ ہمایوں سے سلطنت دہلی چھین لی تھی اور اسے طویل جلا وطنی اختیار کرنی پڑی تھی تو شیر شاہ سوری نے اپنے ساتھ نیازی افغان سپاہ عیسیٰ خان اور ہیبت خان نیازی کے ذریعے دریائے جہلم کے کنارے مشہور قلعہ رہتاس تعمیر کر کے بقول افغان بادشاہ شیر شاہ سور ی کے اُس نے گکھڑوں کے دل میں ایک بڑی کیل ٹھونک دی تھی اسی گکھڑ عملداری میں دھنکوٹ کالاباغ کے مقام پر سوریوں اور نیازیوں کے درمیان جنگیں لڑی گئیں اور پھر اسی خانہ جنگی کے نتیجہ میں دونوں فریق اپنا اقتدار کھو کر تاریخ سے غائب ہو گئے ۔تب مغل بادشاہ ہمایوں کو ہندوستان کا تخت و تاج بھی واپس مل گیا ۔اسی دور میں ہمایوں کا ایک بیوفا برادرِ یوسف کامران مرزا جو خود ہندوستان کی بادشاہی کے خواب دیکھتا تھا کہیں سے پھرتا پھراتا ضلع میانوالی و کوہاٹ کی سرحد پر آن نمودار ہوا ۔تب گکھڑوں کے سردار کا نام آدم خان گکھڑ تھا اسے خوف ہوا کہ کہیں دونوں مغل بھائیوں کی لڑائیوں میں اسے ملوث نہ کر دیا جائے اس نے کامران مرزا کو اپنا مہمان بنا کر چالاکی سے اپنے یہاں قید کر لیا اور اس کی اطلاع ہمایوں کے پاس اپنے ایک معتمد اوڈھر نامی میراثی کو ایک خفیہ کاغذی خط دے کر کابل کی جانب روانہ کر دیا۔بارشوں کا موسم تھا یہ علاقہ پانی سے جل تھل تھا،،دریائے کاغذی میں بھی ایک ایسا زبردست ہڑآیا ہوا تھا اوڈھر میراثی بیچارہ یہیں کہیں اپنے گھوڑے سمیت ہی دریائے کاغذی میں ڈوب مرا ۔بعد میں کامران مرزا کا اور اس کے مغل بادشاہ بھائی ہمایوں کا کیا بنا ،اِس پر تاریخ خاموش ہے ورنہ تومغلوں کو اپنے بھائیوں کی زندہ ہی آنکھیں نکال کر اندھا کرنے کی بری عادت تھی ۔ساون بھادوں کی بارشوں میں جب پہاڑی ندی نالے چڑھ جاتے ہیں تو سارا علاقہ دلدل، منہ زور دریاو جھیلیں بن کر بہ نکلتے ہیں اور پھر بارش کے پانی کے باطن سے پھوٹ پھوٹ کر نکلنے والے ابلتے ہوئے بلبلے ایک ایسا منظر پیش کرتے ہیں کہ جو محبت کرنے والے دو دلوں کی تنہائی و ہجر و وصال اور زندگی کی بے مائیگی اور بے مایا کے ماحول میں سے امید سے بھرا رسمس کا ایک ایسا ماحول بناتے ہیں کہ جیسے پانی پر سفید وسبک کاغذ کی کشتیاں تیرتی ہوئی کوئی مسحور کن نظارہ دیتی ہوں اورمحبوب کی جانب رخ پر بہائی گئی یہ کاغذی کشتیاں ایک سندیس اور رقعہ کا کام دیتی ہیں ۔

ساغری خٹکوں کی ایک آبادی کا منظر

پٹھان و پردیس دونوں ازل سے لازم و ملزوم دو چیزیں ہیں اور تیسری چیز پٹھانوں کی گلاب کے پھولوں سے بے پناہ محبت ہے۔کاغذی بھی اقوام ِ بنگشات اپنے گلاب کے پھولوں اور سر سبز وادیوں کی وجہ سے مشہور ہیں ۔کیا آپ نے پشتو زبان کا کراچی آنے جانے والے پشتون ٹرک ڈرائیوروں کی ٹیپ پر لگایا یہ گانا کبھی سنا ہے؟ جو کچھ یوں ہے : بی بی شیریں اوبی بی شیریں ،کراچئے نہ مالا گلاب راوڑا ، اے خانا،لوشے لوشے ،اے بی بی شیریں ، وئ وئ ۔ مجھے کراچی سے گلاب کے پھول منگوانے کا مطلب اب تک سمجھ نہیں آیا ہے کیونکہ پشاور اور بنگشات کی سرزمین پوری کی پوری خود ایک گلاب ہے۔کراچی کے پھولوں میں یہاں کے پھولوں کے طرح خوشبو کہاں ۔پاکستان کی تاریخ کی ایک مشہور شخصیت مسٹر ایم آر کیانی مرحوم فیلڈ مارشل ایوب خان دور کے چیف جسٹس اسی ہی سرزمین کاایک مایہ ناز سپوت تھا جسکا نام محمد رستم خان کیانی تھا جو ذا ت کا گکھڑ تھا ۔مشہور مجاہد و رہنما خِوشحال خان خٹک اور اس کے پوتے افضل خان خٹک نے اپنی مصنفہ تاریخِ موروثہ کتاب میں جگہ جگہ پر ان کاغذی پٹھان لوگوں کا ذکر کیا ہے پھر بات وہی کہ کاغذی ہے پیرہن ہر پیکرِ تصویر کا۔

تحریر از قلم
فیروز شاہ

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

شکردرہ کی سرزمیں کے تین سیبوں کا قصہ۔۔۔” ایک تبصرہ

اپنا تبصرہ بھیجیں