تعارف؛
کشادے یا کژدی نیازی دراصل وہ خانہ بدوش نیازی قبائل ہیں جو کہ مشرقی افغانستان میں خانہ بدوش زندگی گزارتے رہے ہیں اور آجکل کافی لوگ پاکستان میں ہجرت کرکے خیبرپشتونخوا و بلوچستان میں آباد ہوگئے ہیں.
تاریخ؛
اقبال خان نیازی صاحب کے مطابق کژدی نیازی قبیلے کے سربراہ کا نام شمس الدین تھا جوکہ مندک بن ادریس خان عالی بن سرہنگ کی اولاد سے تھا.
لیکن میرے خیال میں یہ شمس الدین جدید نام ہے شاید اصل نام کچھ اور ہو جیسا کہ حیات افغانی میں کشادے خان لکھا ہوا ہے..
اقبال خان نیازی صاحب کے مطابق کیونکہ یہ بھی سرہنگ قبیلے کی ذیلی شاخ ہے تبھی یہ بھی دیگر سرہنگ قبائل کے ساتھ سردیوں کے موسم میں سلطان خیل کے پہاڑوں پر آ جاتا تھا اور گرمیوں میں واپس افغانستان چلا جاتا تھا. اور اس بات کی تائید کیلئے وہ حیات افغانی کا حوالہ دیتے ہیں جو ان قبائل کی ہجرتوں کا چشم دید گواہ ہے
مزید یہ کہ انگریزوں کے زمانے میں جو نیازی خانہ بدوش قبائل کا ذکر ملتا ہے وہ تقریباً سارے ہی کثردی نیازی قبیلے کی شاخ سے ہیں. اس بات کی تائید اس طرح بھی ہوتی ہے کہ ژوب اور نوشہرہ میں انھی کژدی نیازیوں کے گھر آباد ہیں جو کہ آپس میں رشتے دار ہیں انکے مطابق وہ خوست میں رہتے تھے مگر روس افغان جنگ کے دوران وہ بکھر گئے اور پاکستان آگئے پھر کوئی پشاور رہ گیا تو کوئی کوئٹہ..
پشاور میں آباد اس قبیلے کے مشران کے توسط سے اقبال خان نیازی صاحب اپنی کتاب میں راقمطراز ہیں کہ
ہمارے قبائل تجارت پیشہ کاشتکار اور غلہ بانی کے مقدس پیشوں سے وابستہ چلے آتے ہیں. اپنے بزرگوں سے سنا ہے کہ وہ گرمی افغانستان کے علاقوں میں گزارتے جبکہ سردیاں بنوں، ٹانک و دامان کے علاقے میں آ کر بسر کرتے. قیام پاکستان کے بعد بھی یہ سلسلہ کسی نہ کسی حد تک چلتا رہا. لیکن جب انیس اناسی میں روس نے افغانستان پر حملہ کیا تو پورا افغانستان جنگ کی لپیٹ میں آگیا.. کچھ لوگوں نے ذاتی مفادات کی لالچ میں روسیوں کا ساتھ دیا مگر اکثریت نے روسی جارحیت کے خلاف مزاحمت کی. نیازی قبیلے کے افراد نے بھی روسی جارحیت کے خلاف علم بغاوت بلند کیا اور جان و مال سے اس جہاد میں بھرپور حصہ لیا. نیازیوں نے ایک بہت بڑا لشکر تیار کیا اور روسی افواج کا ڈٹ کر مقابلہ کیا. اس جنگ میں سب سے اولین شہید ہونے والا شخص بھی نیازی تھا. جبکہ نیازیوں کے بڑے بڑے لیڈر اور جنگجوؤں کو بھی روسی افواج نے چن چن کر نشانہ بنایا. جن میں پروفیسر غلام محمد نیازی، پروفیسر عبدالرحیم نیازی، عبدالقادر نیازی، عبیداللہ نیازی اور محمد داؤد خان نیازی وغیرہ قابل ذکر ہیں. یہ سب شہداء جرنیل اور کمانڈر تھے.
اس فساد اور ہنگامہ آرائی میں افغانستان اجڑ گیا تو ہمارے قبائل نے حسب سابق کوچ کرتے ہوئے اپنے دوسرے وطن پاکستان کی راہ لی جہاں آج ہم آباد ہیں.
اقبال خان نیازی صاحب کے مطابق افغانستان میں نیازیوں کی دو بڑی شاخیں موجود ہیں جن میں سے ایک جمال کی اولاد سے جس میں نظر خیل، مڑہل، جگائے، اور لیلیٰ نیازی قبیلے شامل ہیں جبکہ دوسری میں یہ خاکو کی اولاد میں سے کشادے نیازی جن میں خان خیل، اصغر خیل، جانک خیل، ادرمانخیل، عبدالرحیم خیل، میرک خیل، مٹی نیازی، حسین زئی وغیرہ شامل ہیں.
اقبال خان نیازی صاحب اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ تحقیق کے سلسلے میں میری معاونت جناب سلیمان شاہ نیازی آف تاج مارکیٹ کارخانو بازار حیات آباد پشاور نے کی
سلیمان شاہ نیازی بھی حسین زئی قبیلے کے فرد ہیں آپکے والد حاجی آغا سید نیازی ایک زمیندار اور تجارت پیشہ آدمی ہیں. انکے خاندان کے کافی لوگ ابھی بھی تا حال افغانستان میں آباد ہیں یعنی میر داد خیل، حمزہ خیل، رسول خیل اور ملی نیازی ولایت پروان اور پشاور میں دونوں مقامات پر آباد ہیں. آپ کے دادا حاجی عبدالسعید نیازی شہید نے پا پیادہ حج کیا لیکن حج سے واپسی پر نماز پڑھ کر واپس آ رہے تھے کہ ڈاکوؤں کے ایک حملے میں شہید ہوگئے. حاجی صاحب کے بھائیوں نے جوابی حملہ کرکے ڈاکوؤں کو زندہ پکڑ اور انھیں برسرعام اسی گاؤں میں پھانسی پر لٹکا دیا گیا. اس واقعہ کا علم حکومت افغانستان کے علاوہ کوچی قبائل کو ہوا تو انھوں نے اس رد عمل پر خوشی کا اظہار کیا. حاجی سلیمان شاہ نیازی کا بڑا بیٹا آسٹریلیا میں ہوتا ہے
اقبال خان نیازی صاحب خان فرید اللہ خان وزیر ایڈووکیٹ و سابق سینیٹر سے روایت کرتے ہیں کہ گردیز سے کٹاواز اور غزنی سے ایک راستہ تامیر کو جاتا ہے
اس راستے کہ اونچے مقامات پر نیازی قبیلے کے کوچی خیمہ زن ہیں جن کی تعداد تھوڑی ہے. عموماً یہ لوگ احمد زئی غلجیوں میں ضم ہو گئے ہیں. جب کہ رود کے نیازی سلیمان خیلوں میں شامل ہوچکے ہیں.
نیازیوں کے کچھ گھرانے 2005ء میں میرانشاہ میں کوٹ چاندنہ میانوالی میں بھی پناہ گزین ہیں. کوٹ چاندنہ والے نیازی شلگر اور لوگر کے رہنے والے ہیں. ولایت پرون افغانستان کے نیازی شمس الدین کژدی کی اولاد ہیں جو پشاور میں بھی مقیم ہیں.
روایت بقول شیرگل خان نیازی؛
سابقہ سکونتی دشت مرگو افغانستان عمر تقریباً ستر سال. میں نے اپنے مشران سے سنا ہے کہ ہم نیازیوں کے سرور خیل قبیلہ سے ہیں سرور خان اور سوار خان دو بھائی تھے. جو عموماً سردی کا موسم موجودہ ضلع بنوں بشمول عیسٰی خیل، ڈیرہ اسماعیل خان سے لورالائی تک گزرانے آتے تھے. گرمیوں میں واپس چلے جاتے تھے. جب انگریزوں نے بنوں پر قبضہ کرلیا تو بنوں میں ترقی ہوئی اور امن قائم ہوا. ان ایام میں سوار خان کی اولاد بنوں میں مستقل آباد ہوگئی. جبکہ سرور خان کی اولاد کافی پھلی پھولی دروان روس افغان جنگ کچھ لوگ وطن چھوڑ کر مہاجرین کی شکل میں پاکستان آگئے اور کچھ ایران چلے گئے. سوار خان اور سرور خان کی اولا آج بھی بنوں میں آباد ہے لیکن اپنی قبائلی شاخ سے نابلد ہیں. فرید اللہ خان ایک قدیم ٹپہ سناتے تھے کہ
خانی د پہ دوا کورہ تارین کشے بٹی لوانڑی کشے پہ کٹی دا
خانی د پہ دوا کورہ کوچی کشے پہ نیازی دا پہ سمہ درانی دا
خانی پہ دوا کورہ وزیر کشے پہ سپرکی دا ماسید کشے پہ سلیمی دا
او د ا ہم حقیقت دے خٹک کشے پہ ٹیری دا بنگش کشے بیازئی دا
روس افغان جہاد میں کردار:
افغانستان کے روس میں باضابطہ داخلے سے قبل ہی غیور افغان مسلمانوں نے روس کی کٹھ پتلی کمیونسٹ حکومت کی مخالفت شروع کردی تھی ۔ اس مخالفت میں افغان لودھی کی سب سے بڑی شاخ نیازی قبائل نے بہت کلیدی کردار ادا کیا اور افغانستان و روس کی باقاعدہ جنگ ہونے سے قبل افغان مسلمانوں کو اس کے تیار کیا۔
صف اوّل پر پروفیسر غلام محمد نیازی مرحوم کا ذکر ہے ۔آپ افغانستان ،صوبہ عزنی کے شہر انڈر میں پیدا ہوئے غلام محمد نیازی کا تعلق نیازی قبیلہ کی ذیلی شاخ عبدالرحیم خیل سے ہے۔ آپ نے جامعہ الااظہر یونیورسٹی مصر سے 1957ءمیں ماسٹر کی ڈگری حاصل کی اور بعد ازاں افغانستان لوٹ کر درس و تدریس کا کام شروع کیا جلد ہی پغمان میں ابو حنیفہ کے نام سے سکول کی بنیاد رکھی اور یہ سکول بڑھتا بڑھتا جماعت اسلامی افغانستان کا ہیڈکوارٹر بنا۔ آپ روس کے خلاف لڑنے والے سب سے بڑی جماعت حزب اسلامی کے خالق ہیں ۔ موجود دور میں حزب اسلامی کے قائد گلبدین حکمتیار ہیں ۔غلام محمد نیازی مرحوم کو 1974ء میں کل افغانستان کی کمیونسٹ حکومت نے گرفتار کر لیا آپ 28مئی 1979ء کو جیل میں ہی اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔
دوسرے نمبر پر پروفیسر عبدالرحیم_نیازی کا نام آتا ہے آپ 1943 میں افغانستان کے صوبہ فاریاب کے شہر پشتون کوٹ میں پیدا ہوئے،آپ نے کابل یونیورسٹی کے شریعہ کالج میں تعلیم حاصل کی، آپ نے “موومنٹ آف مسلم یوتھ” کی بنیاد رکھی ۔ آپ نے روس کی کٹھ پتلی کمیونسٹ افغان حکومت کی مخالفت کی جس کی وجہ سے آپ کو قید کر دیا اور جیل میں زہر دے کر 1971ء میں شہید کر دیاگیا۔
1979ء میں جب افغانستان و روس کی جنگ شروع ہوئی تو نیازی قبیلے نے جہاد میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ۔بحوالہ کتاب تاریخ نیازی قبائل صرف صوبہ پکتیا کے 1500 نیازی جوانوں نے جام شہادت نوش فرمایا۔
روس کے خلاف جہاد میں افغانسان کے مختلف صوبوں میں نیازی مجاہدین کے کمانڈر میں سے چند ایک کے نام درج ذیل ہیں۔
وکیل محمود خان_نیازی صوبہ قندھار کے نیازی مجاہدین کے سربراہ تھے
انجینئربشیرخان نیازی اور اخترنیازی صوبہ بگرام کے مجاہدین کے کمانڈر تھے, پروان کے کمانڈر عبیداللہ نیازی,حاجی حیات خان نیازی میرک خیل صوبہ خوست کے کمانڈر تھے, مولوی چنارنیازی نظرخیل ،کمانڈرمحمدحسن نیازی,ملاگل دم نیازی اصغرخیل، داؤدشاہ نیازی بوری خیل مستی وال وغیرہ جہاد افغانستان میں شریک چند نامور شخصیات ہیں
روس کے بعد طالبان حکومت آئی تو نیازی قبیلہ کے ملاعبدالمنان نیازی کو کابل کا گورنر مقرر کیا گیا آپ 1968ء میں افغانستان کے صوبہ ہرات کے گاؤں زرگون میں پیدا ہوئے ، آپ طالبان کی اعلیٰ شوریٰ کے رکن اور ملا محمد عمر کے ڈپٹی کمانڈر تھے ۔ ملا عمر کے شہید ہونے کے بعد آپ کو طالبان کا سربراہ مقرر ہونا تھا لیکن طالبان شوریٰ نے ملا منصور کو افغان طالبان کا سربراہ مقرر کیا جس پر آپ نے طالبان سے علیحدگی اختیار کر لی اور اپنا علیحدہ سے طالبان گروپ بنا لیا ۔ اور 15 مئی 2021ء کو ایک حملے میں زخمی ہوئے اور اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔آپ کے جانشین آپ کے بیٹے ملاخالدنیازی ہیں۔
اس کے علاؤہ صوبہ زابل کے طالبان کمانڈر ملامحمدگل_نیازی نیٹو افواج پر حملے کرنے میں پیش پیش رہے۔
زیر نظر تصاویر میں نیازی قبائل سے تعلق رکھنے والے چند مشہور مجاہدین ہیں
مشہور شخصیات؛
پروفیسر غلام محمد نیازی مرحوم
جناب پروفیسر نیازی صاحب کے والد کا نام عبدالنبی نیازی تھا. آپ کا تعلق غزنی کے علاقہ اندڑ سے تھا جہاں پر نیازیوں کا رحیم خیل قبیلہ آباد ہے.
ابتدائی تعلیم آپ نے علاقے کے ہجویری مدرسہ سے حاصل کی جبکہ مزید تعلیم کیلئے آپ مدرسہ ابو حنیفہ کابل تشریف لے آئے. اعلیٰ تعلیم کیلئے آپ نے جامعہ الااظہر یونیورسٹی قاہرہ کا رخ کیا اور وہاں سے 1957 میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کی. اور بعد ازاں افغانستان وطن واپس لوٹے اور یہاں درس و تدریس کا سلسلہ شروع فرمایا اور پغمان میں ایک ابو حنیفہ کے نام سے سکول کی بنیاد رکھی. جو کہ بعد میں جماعت اسلامی افغانستان کا ہیڈکوارٹر بنا. آپ نے ساتھ ساتھ کابل یونیورسٹی میں بطور پروفیسر خدمات دینا شروع کیں اور پھر یونیورسٹی کے اسلامک سٹڈیز کے سربراہ مقرر ہوگئے. نیازی صاحب ایک راسخ العقیدہ مسلمان تھے اور حسن البناء کی اخوان سے متاثرہ تھے. وہ اس وقت کمیونزم کے خلاف صف آراء ہوئے جو کہ افغانستان کے مسلمانوں کو لادینیت کی طرف لے جانا چاہتی تھی. آپ نے علمی مزاحمت شروع کی اور یوں افغانستان میں جماعت اسلامی افغانستان کی بنیاد رکھی..آپ افغانستان کی اسلامی مزاحمتی تحریک کے بانی ہیں..
موجودہ دور اور ماضی کے مقتدر افغانستان کے سیاسی لوگ نیازی صاحب کے یا تو شاگرد رہے یا پھر ان سے متاثر تھے. جن میں برہان الدین ربانی، عبدالرسول سیاف، گلبدین حکمتيار وغیرہ ہیں.
سنہ 1972 میں افغانستان کی حکومت داؤد خان کے دور میں جو کہ کیمونسٹ تھی. آپ کی شہرت سے گھبراہٹ کا شکار ہوگئی اور اس نے نیازی صاحب کو پابند سلاسل کیا. بعدازاں آپ کو رہا کردیا گیا مگر اپریل 1974 میں پھر گرفتار کرلیا گیا. تو انکی جماعت کی سربراہی انکے شاگرد خاص برہان الدین ربانی (سابقہ صدر افغانستان) کو سونپی گئی.
بروز 28 مئی 1979 میں خلق پارٹی کی حکومت میں جیل کی صعوبتیں برداشت کرتے ہوئے اپنے خالق حقیقی سے جا ملے.. انا للہ وانا الیہ راجعون
اس کے مشہور شخصیات درج ذیل ہیں۔۔۔
حاجی گل محمد نیازی حیسن زئی، حاجی عبدل جان نیازی میر داد خیل، عبدالقدیر نیازی حسین زئی، حاجی انار دین خان حمزہ خیل، حفیظ اللہ خان نیازی حمزہ خیل، سلیمان شاہ نیازی حسین زئی، سیدلال شاہ نیازی حسین زئی، حاجی حبیب الرحمن نیازی مومن خیل، پروفیسر غلام محمد نیازی شہید، پروفیسر عبدالرحيم نیازی شہید، عبدالقادر نیازی، شہید، کمانڈر عبیداللہ نیازی شہید، داؤد نیازی شہید وغیرہ شامل ہیں
ذیلی شاخیں؛
حیسن زئی ،مومن خیل، میر داد خیل، حمزہ خیل، اصغر خیل، خان خیل، میرک خیل، جانک خیل، مستی خیل، ادرمان خیل، مٹی نیازی، ملی خیل، خڈان خیل، رسول خیل، وغیرہ شامل ہیں
نوٹ؛
یہ بات یاد رہے کہ زیر دستیاب شجرہ جات صرف وہ ہیں جو تاریخ نیازی قبائل کتاب کے مؤلف حاجی اقبال خان نیازی صاحب مرحوم نے اپنی کوشش سے اکھٹے کئے یا جن لوگوں نے ذاتی دلچسپی لیکر کر شجرے بنا کر ان تک پہنچائے.ان شجروں کو قطعی طور پر مکمّل نہ سمجھا جائے کیونکہ یہ چند سو افراد کے شجرے ہیں جبکہ قبیلے کی آبادی ہزاروں افراد پر مشتمل ہے..مزید یہ کہ افغانستان کے نیازی قبائل زیادہ تر خانہ بدوش اور ناخواندہ ہیں جن تک رسائی حاصل کرنا بھی مشکل ہے دوسری بات لینگوئج بیریر بھی حائل ہے۔پس اگر کسی کا زیر دستیاب شجرے میں نام موجود نہیں تو اس کا ہرگز مطلب یہ نہیں کہ وہ نیازی نہیں یا کژدی شاخ سے نہیں. بلکہ یہ انتہائی محدود افراد کے شجرے ہیں جو مؤلف کو دستیاب ہوئے وہ شامل کردیئے۔اگر کوئی آرٹیکل میں مزید معلوت کا اضافہ کروانے کا متمنی ہے یا کوئی تصحیح درکار ہے یا کسی معروف شخصیت کی تصویر شامل کروانا چاہتا ہے تو ہمیں نیچے کمنٹ کریں یا فیس بک پیج نیازی پٹھان قبیلہ پر انبکس کریں شکریہ
ایڈمن نیازی پٹھان قبیلہ
www.NiaziTribe.org