تعارف؛
قبیلہ پنوں خیل دراصل قبیلہ بلو خیل کی ذیلی شاخ مگر آجکل جداگانہ شناخت رکھتی ہے. مزید برآں جناب محترم نذیر درویش صاحب نے جناب محترم مکرم ڈاکٹر طارق مسعود خان نیازی صاحب کی فہمائش و زیرسرپرستی اس قبیلے پر الگ سے کتاب لکھ کر ہم پر لازم کردیا کہ اس قبیلے پر الگ سے آرٹیکل نہ لکھنا ناانصافی ہوگی..
تاریخ؛
جیسا تعارف میں بتایا گیا ہے کہ قبیلہ پنوں خیل دراصل قبیلہ بلو خیل ہی کی ایک شاخ ہے جوکہ پنوں خان بن جوگئے خان بن بہلول خان نیازی بن عیسب خان بن اسمعیل بن بوبک فقیر بن شادی خان بن تور مندک بن ادریس خان عالی بن سرہنگ تک جاتا ہے..
اور پھر سرہنگ سے خاکو اور خاکو سے نیازی بابا تک جا ملتا ہے..
وجہ تسمیہ نام؛
نذیر درویش صاحب کے مطابق پنوں دراصل پشتو زبان کے لفظ “پہ نن” تھا. جس کے “آج کا دن ” بنتے ہیں.
یعنی جس دن یہ بچہ جوگئے خان کے ہاں پیدا ہوا تو اس نے خوشی اس بچے کا نام “پہ نن خان” رکھا. جو کہ بگڑتے بگڑتے پنوں خان ہوگیا..
کیونکہ پشتونوں کے کوچی و دیگر ناخواندہ و پسماندہ قبائل میں آج بھی رواج ہے کہ وہ دنیا کے مختلف مظاہرات پر بچوں کے نام عجیب طریقوں پر رکھ دیتے ہیں..
دوسرا یہ کہ میانوالی کے نیازیوں کی اصل مادری زبان تو پشتو تھی جسکو فراموش کر چکے ہیں لیکن قدیم نام موجودہ زبان میں تغیر پذیر ہوکر مطلب و معنیٰ بھی کھو چکے ہیں .. جیسا کہ غنڈی(گاؤں) پشتو میں پہاڑ کی چوٹی کو کہتے ہیں جبکہ میانوالی کی زبان میں غنڈی بدمعاش عورت کو کہتے ہیں..
گدا دراصل سوالی یا نیاز مند کو کہتے ہیں جبکہ میانوالی کی زبان میں وہ گندا ہوگیا. میانوالی کی زبان میں گندا معنیٰ میلا کچیلا کے ہوتے ہیں. گندا خیل اب توحید آباد کہلاتا ہے..
اسی طرح موسی خیل قبیلہ کی ایک شاخ مُشر خیل تھی، پشتو میں مُشر کے معنیٰ سردار کے ہیں. لیکن میانوالی کی زبان میں مُشر مچھر خیل بن گیا. میانوالی کی زبان میں مچھر کے دو معنیٰ ہیں ایک مچھر حشرات جبکہ دوسرے مچھر کے معنیٰ غصہ کی حالت کے ہیں..
اسی طرح لاتعداد امثال موجود ہیں..
ابتدائی تاریخ؛
قبیلہ پنوں خیل کی ابتدائی تاریخ تو اسکے بڑے قبیلے یعنی بلو خیل کی ذیلی شاخ کے طور پر گزری ہے.
نذیر درویش صاحب لکھتے ہیں کہ پنوں خان کے والد کا نام جوگئے خان تھا جو کہ شاید اصل نہیں بلکہ معروف نام تھا. کیونکہ اس کی دراز اور گھنگرالی زلفوں کے باعث معروف ہوا. یاد رہے کہ پشتو زبان میں جوگئے زلفوں کو کہتے ہیں. لیکن میرا خیال میں یہ نام اصلی بھی ہوسکتا ہے کہ شاید جس وقت جوگئے خان پیدا ہوا ہو ۔ اس کا والد سردار بہلول خان دیکھنے آیا ہو تو جوگئے کی والدہ نے بچے کو اپنے بالوں یعنی زلفوں میں چھپا رکھا ہو تبھی بہلول خان نے اسی نسبت سے اس کا نام جوگئے خان رکھ دیا ہو..
ویسے بھی غلجی قبائل میں زلفیں رکھنے کا قدیم رواج ہے جوکہ ساکاؤں کی نشانی جانا جاتا ہے. کیونکہ نیازی بھی غلجیوں کی ایک شاخ ہے تبھی میانوالی ہو یا افغانستان نیازی نوجوان زلفیں رکھنے کے شدید شوق رکھتے ہیں..
جدید تاریخ؛
قبیلہ پنوں خیل کی جدید تاریخ کوئی مشترکہ قبائلی لحاظ سے تو تشکیل نہیں پاتی ہاں البتہ انفرادی شخصیات اتنی کافی زیادہ ابھری ہیں کہ اگر اس کو یہاں پر لکھا جائے تو اس کو پورے قبیلے کی مجموعی تاریخ کہنا غلط نہ ہوگا.
شخصیات؛
کیونکہ یہ ایک آرٹیکل ہے جس کی حدود انتہائی محدود ہیں تبھی ہم یہاں انتہائی چیدہ چیدہ شخصیات کو مختصراً بیان کریں گے البتہ دلچسپی رکھنے والے حضرات شجرہ نسب تاریخ نیازی قبیلہ پنوں خیل نامی کتاب کو مطالعہ کرکے مکمّل مفصل معلومات حاصل کرسکتے ہیں..
سلطان سکندر خان نیازی؛
آپ جناب فتح خان نیازی کی نرینہ اولاد تھے. جس زمانے میں آپ نے جنم لیا وہ خلفشار اور بے یقینی کا زمانہ تھا. دہلی کے مغل اور لاہور کے سکھوں کی حکومتیں دیار غیر سے آئے فرنگیوں کے رحم و کرم پر تھیں. اسی زمانے میں انگریزوں نے ہندوستان میں نیا تعلیمی نظام رائج کیا تھا. جس پر آج بھی پاک و ہند کا تعلیمی نظام کھڑا ہے
اس ابتدائی تعلیمی نظام سے ہندوؤں نے زبردست فائدہ اٹھایا جبکہ مسلمانان ہند اس نظام سے خاطرخواہ فائدہ اٹھانے میں ناکام رہے. اسی زمانے میں سرسید احمد خان نے لوگوں کو اس تعلیمی نظام کی طرف راغب کرنے کی کوشش کی.. بس اسی زمانے میں جناب فتح خان نیازی نے اپنے فرزند سلطان سکندر خان نیازی کو بھی میٹرک تک تعلیم دلوائی. جو اس زمانے میں انتہائی اعلیٰ تعلیم سمجھی جاتی تھی. تعلیم کے فوراً بعد آپکو ہاتھوں ہاتھ لیا گیا اور حکومت ہند کی طرف سے آپکو سب جج مقرر کردیا گیا. یاد رہے کہ اس زمانے میں میانوالی ضلع نہیں بنا تھا اور تحصیل میانوالی کا دفتر بلو خیل کے علاقے میں موجود تھا جس کے کچھ آثار آج بھی کھنڈرات کی صورت میں موجود ہیں
آپ کی لیاقت اور قابلیت کے باعث تمام بلو خیل قبیلہ میں آپ کا نام معزز و محترم ہوا. لوگ آپ کو سپرنٹنڈنٹ سلطان سکندر خان کہہ کر یاد کرتے ہیں..
جناب ظفر نیازی براڈکاسٹر آپ کو میانوالی کا سرسید کہتے ہیں جنھوں نے میانوالی کے لوگوں میں تعلیم کیلئے شعور بیدار کیا اور انگریزوں کے ہاں جو نیازیوں کا خاکہ بنا ہوا تھا کہ یہ جنگ و جدل کے جھگڑالو لوگ ہیں اور قابل اعتبار نہیں ہیں. ختم کرکے نیازیوں کیلئے ملازمتوں کی راہ ہموار کی.
بعداز ریٹائرمنٹ آپ کو آنریری مجسٹریٹ کا عہدہ حکومت سے سنبھالنے کا موقع بھی ملا. لوگ کہتے ہیں کہ اگر کوئی اپنے قبیلے کا کوئی مجرم پیش ہوتا تو فیصلہ ضرور انصاف سے کرتے مگر جیل لے جاتے ہوئے عملے کو البتہ تاکید کرتے کہ اس کو چھاوایں چھاوایں کھڑائے مطلب درختوں کے سایہ میں لیکر جانا بطور سزا دھوپ میں نہ چلانا..
آپ کا انتقال 31مئی 1944ء کو ہوا.
خان بہادر مولوی غلام حسن خان نیازی پشاوری؛
آپ جہان خان نیازی کے ہاں 1885ء میں پیدا ہوئے. جب جوانی کو پہنچے تو والد صاحب نے آپکو روایتی طریقہ کے مطابق زمینداری کی ذمہ داری سونپی. مگر یہ کام آپکے مزاج کے برعکس تھا آپکو تحصیل علم کا شوق تھا. پس آپ نے گھر سے راہ فرار اختیار کرتے ہوئے پشاور کی راہ لی. انکے اس سفر کے متعلق جناب نذیر دویش صاحب نے تین روایات نقل کی ہیں جوکہ یہاں طوالت کے سبب نہیں لکھ رہے. بہرحال وہاں جا کر آپ نے تعلیم بھی حاصل کی اور شادی بھی وہیں کی. تعلیم یافتہ ہونے کے ناطے وہاں آپ کو رجسٹرار میونسپل کمشنر کی ملازمت مل گئی. غلام حسن خان نیازی کو حکومت برطانیہ کی طرف سے خان بہادر کا خطاب 1923ء میں افغانستان کے متعلق گراں قدر خدمات سرانجام دینے کے سلسلے میں ملا.
آپ کا مذہب کی طرف لگاؤ بہت تھا جسکی وجہ سے آپ نے قرآن مجید کا حفظ بھی کیا اور حُسن بیان کے نام سے تفسیر بھی لکھی. کیونکہ اس زمانے میں فتنہ قادیانیت زور شور پر تھا. لیکن اس زمانے تک عام و خواص مسلمان اس کو ایک الگ فرقہ کے طور پر دیکھتے تھے. اور مناظرے بھی آپس میں چلتے رہتے تھے. تبھی اس فتنے کے شکار کافی معروف لوگ ہوئے جن میں مولانا اکبر شاہ خان نجیب آبادی، صاحبزادہ عبدالقیوم خان، علامہ نیاز فتح پوری وغیرہ شامل ہیں.. پس اسی طرح غلام حسن خان نیازی بھی اس فتنے کا شکار ہوکر قادیانی ہوگئے.. قادیانیوں کی ویبسائٹ کے مطابق آپ نے اپنی ایک دختر کا نکاح بھی اس وقت کے قادیانی خلیفہ سے کردیا.
آپ کے سات عدد بیٹے ہوئے جنھوں نے اپنی زندگیوں میں کافی کامیابیاں حاصل کیں اور اعلیٰ سرکاری عہدوں سے ریٹائرڈ ہوئے.
لارڈ ہیڈلی جو مشہور مغربی مستشرق تھا اسکی قبول اسلام میں بھی آپ نے کافی مدد کی. جب وہ ہندوستان دورے پر آیا تو وہ آپ سے ملنے پشاور بھی پہنچا..
مرزا قادیانی کی وفات کے بعد آپ قادیانیوں کے فرقہ لاہوری سے متعلق ہوگئے تھے مگر بعد ازاں ان سے اختلافات کے باعث قادیان جا کر دوبارہ مرکزی قادیانی جماعت میں شامل ہوگئے اور وہیں 1944ء میں فوت ہو کر ملک عدم کے راہی ہوئے..
کرنل عبد الرب خان نیازی؛
آپ 1927ء میں عبداللہ جان خان نیازی کے ہاں پیدا ہوئے آپ خان بہادر غلام حسن خان نیازی کے پوتے تھے.
آپ نے ابتدائی تعلیم پشاور سے حاصل کی.
آپ نے قیام پاکستان کے بعد فوج میں شمولیت اختیار کی آپ نے 1965ء کی پاک بھارت جنگ میں نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کیا جس پر آپکو حکومت پاکستان کی طرف سے ستارہ جرات ملا..
سجاد سرور خان نیازی؛
آپ 1903ء میں پیدا ہوئے. آپ جناب سلطان سکندر خان نیازی صاحب کے زیر سایہ تربیت پائی تھی. آپ نے اسلامیہ کالج لاہور سے بے اے انر کیا اور طبعی میلان کیونکہ فنون لطیفہ کی طرف تھا تبھی آل انڈیا ریڈیو میں ملازمت اختیار کر لی.
آپ نے بی بی سی لندن سے خصوصی ٹریننگ لینے کیلئے لندن بھی بھیجے گئے.. جب پشاور میں ریڈیو اسٹیشن بنایا گیا تو آپ اس کے پہلے اسٹیشن ڈائریکٹر مقرر ہوئے. اس کے علاوہ ریڈیو اسٹیشن لاہور میں بھی بطورِ اسٹیشن ڈائریکٹر ذمہ داریاں سرانجام دیں. قیام پاکستان کے بعد آپ ریڈیو پاکستان کا حصہ بنے اور کراچی میں ڈائریکٹر آف میوزک تعینات ہوئے. اور ڈپٹی ڈائریکٹر ریڈیو پاکستان ریٹائرڈ ہوئے. سجاد سرور نیازی صاحب سے علامہ اقبال بصد تکرار حالی کی غزلیں سنا کرتے تھے. مشہور گلوکارہ. ناہید نیازی آپکی صاحبزادی ہیں.
مصباح الحق خان نیازی؛
مصباح الحق خان نیازی کا تعلق میانوالی کے پنوں خیل قبیلہ سے ھے۔ آپ نے بیچلر ڈگری فیصل آباد سے کرنے کے بعد یونیورسٹی آف منیجمنٹ اینڈ ٹیکنالوجی لاہور سے ایم بی اے کی ڈگری حاصل کی۔ آپ نے کرکٹ کی دنیا میں کئی ریکارڈ بنائے اور اعزاز اپنے نام کیئے۔
آپ نے پاکستان کرکٹ ٹیم کے کپتان کے طور پر بھی بہترین کارگردگی دکھائی۔ آپکو صدر پاکستان کی طرف سے پرائیڈ آف پرفارمنس اور ستارہ امتیاز سے نوازا گیا۔ آپ پاکستان نیشنل کرکٹ ٹیم کے ہیڈ کوچ اور چیف سیلیکٹر کے طور پر خدمات سرانجام دیتے رھے ہیں۔
ڈاکٹر طارق مسعود خان نیازی ؛
آپ1958ء میں جناب امیر محمد خان نیازی کے ہاں پیدا ہوئے. آپ نے ابتدائی تعلیم میانوالی سے حاصل کی اور میٹرک کے امتحانات میں ضلع بھر میں اول پوزیشن حاصل کی. بعدازاں کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج سے ڈاکٹری کا امتحان پاس کیا اور آپ میڈیکل سپرنٹنڈنٹ عیسٰی خیل ہسپتال مقرر ہوئے. آپ نے امراض سینہ میں سپیشلائزیشن کی اعلیٰ تعلیم کی. کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج میں شعبہ فزیالوجی میں تدریس کی ذمہ داریاں بھی ادا کیں..بعدازاں شعبہ امراض قلب میں تعلیم حاصل کی اور ضلع میانوالی کے ہسپتال میں شعبہ امراض قلب کے سربراہ کے طور پر تعینات رہے.
بعد از ریٹائرمنٹ آپ نے عبید نور ہسپتال میں اپنی ذمہ داریاں سنبھال لیں جہاں ابھی تک آپ مصروف عمل ہیں..
اس کے علاوہ آپ نے جو سب سے عظیم کارنامہ جو سرانجام دیا وہ یہ کہ اپنے قوم قبیلہ پنوں خیل ایک کتاب تصنیف کروائی. اس سلسلے میں جناب نذیر درویش صاحب کو اس طرف راغب کیا اور انھیں مفصل معلومات فراہم کرنے اور ہر قسم کی بھرپور اعانت کی. جس کے نتیجے میں قبیلہ پنوں خیل پر ایک مفصل اور انتہائی بہترین معلومات سے بھرپور کتاب تصنیف ہوئی ہے. جو کہ نیازیوں میں تاریخ نیازی قبائل کتاب جناب اقبال خان نیازی صاحب کے یہ دوسری کاوش ہے..
یقیناً اس کام سے وہ نہ صرف اپنے قبیلے بلکہ خود کو بھی امر کر چکے ہیں..
دیگر نمایاں شخصیات:
اس کے علاوہ بھی بیسیوں نمایاں شخصیات قبیلے پنوں خیل نے پیدا کی ہیں. جن پر کلام کرنے سے آرٹیکل طویل ہوجائے گا. پس ان اشخاص کے بس نام لکھے جا رہے ہیں..
افضل خان نیازی، لیڈی ڈاکٹر یاسمین نیازی، ڈاکٹر شازیہ نسرین نیازی، ٹھیکیدار امیر عبداللہ خان نیازی چئیرمین، برگیڈیر شیر علی خان نیازی، مطیع اللہ خان نیازی، کرنل زبیر مسعود نیازی، کیپٹن عامر مسعود نیازی شہید، میجر ظفر محمود نیازی، لیفٹیننٹ کرنل محمد شہزاد خان نیازی، میجر غلام حسن خان نیازی، سکوارڈن لیڈر پرویز اسلم خان نیازی وغیرہ شامل ہیں..
ذیلی شاخیں ؛
گلن خیل ،شادی بیگ خیل، عیسب خیل، احمدی خیل، حسین خیل، اللہ یار خیل، نور خان خیل، خان بیگ خیل،، حلیم خیل اور روزی خیل شامل ہیں..
نوٹ؛
یہ بات یاد رہے کہ زیر دستیاب شجرہ جات صرف وہ ہیں جو تاریخ نیازی قبیلہ پنوں خیل کتاب کے مؤلف نذیر دوریش صاحب نے ڈاکٹر طارق مسعود خان صاحب کی توسط سے اکھٹے کئے یا جن لوگوں نے ذاتی دلچسپی لیکر کر شجرے بنا کر ان تک پہنچائے.ان شجروں کو قطعی طور پر مکمّل نہ سمجھا جائے کیونکہ کافی محنت اور کوشش کے باوجود بھی کچھ لوگ یقینا رہ گئے ہونگے .. اگر کسی کا زیر دستیاب شجرے میں نام موجود نہیں تو اس کا ہرگز مطلب یہ نہیں کہ وہ نیازی نہیں یا پنوں خیل نہیں. بلکہ یہ ان افراد کے شجرے ہیں جو مؤلف کو دستیاب ہوئے وہ شامل کردیئے۔اگر کوئی آرٹیکل میں مزید معلوت کا اضافہ کروانے کا متمنی ہے یا کوئی تصحیح درکار ہے یا کسی معروف شخصیت کی تصویر شامل کروانا چاہتا ہے تو ہمیں نیچے کمنٹ کریں یا فیس بک پیج نیازی پٹھان قبیلہ پر انبکس کریں شکریہ
ایڈمن نیازی پٹھان قبیلہ
www.NiaziTribe.org