تعارف؛
قبیلہ مڑھیل ایک کوچی نیازی قبیلہ ہے جو گومل کے درہ سے پاکستان سےافغانستان نقل و حرکت کرتا ہے.
تاریخ؛
اگر ہم مخزن افغانی اور حیات افغانی کے بیانات کو یکجا کر کے پڑھیں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ مڑھیل دراصل جمال (یعنی نیازی بابا کے بڑے بیٹے) کا پوتا تھا.
مڑھیل دراصل افغانستان کے نظر خیل، خان خیل، جگائے جنھیں بورگی بھی کہتے ہیں کا ایک بھائی بند قبیلہ ہے.
نظر خیل پر الگ آرٹیکل لکھا جا چکا ہے جبکہ جگائے یعنی بورگی قبیلہ کی آبادی تو افغانستان میں کافی موجود ہے لیکن ان پر کوئی معلومات ابھی تک ہم تک نہیں پہنچ سکی.
چونکہ افغانستان میں نیازیوں کی بہت قلیل تعداد ماضی قریب تک مستقل سکونت پذیر رہی اکثریت کوچی یعنی خانہ بدوش رہے.
ان کوچی قبائل کی تاریخ پر انگریزوں کے زمانے میں کچھ کام ہوا. انگریزوں کے جانے کے بعد حکومت افغانستان نے کام نہیں کیا اور ساتھ ہی افغانستان میں سیاسی حالات ہی کچھ ایسے بنے کہ گزشتہ پچاس سال سے خانہ جنگ جاری ہے جو پتہ نہیں کب جا کر رکے.
بہرحال نیازی قبیلے کی اس شاخ بارے سب سے پہلے ہمیں تفصیلی معلومات حیات افغانی سے ملتی ہیں. جس میں صفحہ نمبر 298 پر حیات افغانی کے مصنف کا بیان ہے کہ
“مڑھیل،کُنڈی اور مٹہی نیازی کی شاخیں پیوندہ گری اور سوداگری کا پیشہ کرتے ہیں اور تجارت سے آسودہ حال ہیں۔”
پشتونوں کی تاریخ اور پشتو زبان کے ماہر میجر ریوراٹی اپنی کتاب نوٹس آن افغانستان اینڈ بلوچستان میں صفحہ نمبر 489 پر نیازی کے باب میں راقمطراز ہیں کہ
“موجودہ زمانے میں بہت ہی کم پاوندہ نیازی آتے ہیں جن میں کچھ کونڈی قبیلہ کے لوگ ، اور کچھ دیگر چھوٹی شاخوں جیسے مٹی اور مڑھیل پاوندہ شامل ہیں۔جبکہ دیگر بنوں و ڈیرہ اسمعیل خان کے اضلاع میں مستقل آباد کار ہیں جو زمینات کے مالک اور کاشت کار ہیں کچھ بڑے مشہور اونٹ پال ہیں ۔ “
اسی پیرگراف کے حاشیہ میں لکھتے ہیں کہ
” مڑھیل دراصل نیازی ہیں،نہ کہ شیرانی جیساکہ میکگوریگر نے خیال کیا ۔”
میجر ریوارٹی مزید آگے چل کر صفحہ نمبر 4
“دوتانی کے بعد نیازی خانہ بدوش نمودار ہوتے ہیں۔ نیازی قبیلے کے وہ حصے آتے ہیں جنہیں مڑھیل اور مٹھی کہا جاتا ہے، جن کی زمینیں بیکار ہیں اونٹوں کے چارے کے علاوہ اور کسی کام کی نہیں ہیں۔ یہ بھی تعداد میں بہت کم ہیں، تقریباً 200 خاندانوں سے زیادہ نہیں، اور ان کی تعداد 750 سے 1000 نفوس پر مشتمل ہے۔ اور انہوں نے ڈیرہ اسماعیل خان ضلع کے شمالی حصے میں پہاڑ پور سے دس میل جنوب میں اپنا ٹھکانہ قائم کیا ہوا ہے۔ جسے ان کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ ان کے بعد نیازی قبیلے کے دوسرے طبقے بھی اسی تعداد کے ہیں، جنہوں نے اسی طرح مڑھیل اور مٹھی کے قریب ڈیرے ڈالے۔”
اس پیراگراف کے نیچے مڑھیل کی وضاحت میں مزید لکھتے ہیں کہ
“میرے خیال میں لوگوں نے میکگوریگر کو بھٹکایا ہے جس کی وجہ سے مڑھیل کو لیکر میکگوریگر نے کافی غلطیاں کی ہیں۔جیسے پہلے اس نے مڑھیل کو ایک جداگانہ شناخت کا حامل پاوندہ قبیلہ لکھا ہے اور پھر آگے چل کر مڑھیل کو شیرانی کی ذیلی شاخ بنا دیا ۔مزید آگے ایک اور جگہ لکھ دیا کہ شیرانی قبیلہ مڑھیل کے شمال اور مشرق میں آباد ہے۔اگر مڑھیل قبیلہ شیرانی کی شاخ ہے تو پھر یہاں کیونکر انھیں شیرانی سے الگ حیثیت میں بیان کرنے کی نوبت پیش آئی؟۔پس اصل بات یہ ہے کہ مڑھیل لودھی پشتونوں کے قبیلہ نیازی کی ایک کمزور شاخ ہے جو یہاں پاندہ گری کرتے ہوئے پہنچا ہے۔”
مزید صٖفحہ نمبر 527 پر لکھتے ہیں کہ
“اس سے آگے پھر، مرکزی مشرقی رینج کے مغرب کی طرف، جزوبہ درہ کے دریا کی طرف، غیر متزلزل لہروں میں، نیچے کی طرف ڈھلتا ہے، اور اس راستے کو، جیسا کہ اس کے روایتی قرائن اور حالات بتاتے ہیں، پشتہ کہلاتے ہیں، یہاں سال کے کچھ حصے کے لیے، نیازیوں کی ایک شاخ، مڑھیل قبیلے کے لوگ رہتے ہیں، جو خانہ بدوش ہیں، اور صرف گرمیوں میں یہاں آتے تھے، سردیوں میں دامن چلے جاتے تھے۔ وہ مکمل طور پر خیموں میں رہتے ہیں، اور ان کے پاس بے شمار مویشی اور ریوڑ ہیں، ان کے فوری جنوب میں کفیف(شیرانی کی شاخ) ہیں، جب آپ تنگی کے راستے آگے بڑھتے ہیں دائیں ہاتھ پرشیوئے لڑی غاشے آپ کے دائیں ہاتھ پر واقع ہے۔ ان کے بالکل جنوب میں پھر حریفال (شیرانی کی شاخ) ہیں۔میجر ریوراٹی اپنی کتاب کے صفحہ 489 پر لکھتا ہے کہ مڑھیل جنھٰیں کچھ لوگ شیرانی کی شاخ سمجھتے ہیں یہ غلط ہے۔بلکہ یہ نیازیوں کا ہی خانہ بدوش قبیلہ ہے جو یہاں پر آگیا ہے۔
لارڈ ایچ اے ہیوز بھی اپنی کتاب گلوسری آف ٹرائب کی جلد 03 صفحہ نمبر 79 میں لکھتے ہیں کہ۔
“”مڑھیل نیازی پٹھانوں کی ایک شاخ ہے۔ جو جام (نیازی بابا کے بڑے بیٹے کا نام جام تھا) کے آٹھ بیٹوں میں سے ایک بیٹے سے چلی۔ مڑھیل ایک غیر معروف پاندہ قبیلہ ہے جو شیرانی دیہاتوں اور ڈیرہ اسماعیل خان کی برطانوی سرحد کے درمیان نشیبی پہاڑوں میں چند بکھرے ہوئے دیہاتوں کا مالک ہے۔ وہ کاکڑستان اور دامان کے درمیان تجارت کرتے ہیں۔ ان کی عادات پووندون ( کوچی)کی طرح ہیں اور وہ موسم گرما کے آغاز میں ہی افغانستان چلے جاتے ہیں”
برگیڈیر ہارون الرشید اپنی کتاب دی ہسٹری آف پٹھانز میں لکھتے کہ
مڑہیل کوہ سلیمان کی مغربی طرف واقع سپُُستہ وادی میں کفیف(شیرانی قبیلہ کی شاخ) کے علاقے میں آباد ہیں.
ان کا یہ علاقہ ہریفال افغانوں سے شروع ہوکر مغرب میں مندو خیلوں تک آتا ہے.. گزٹیر آف بلوچستان کے مطابق 1871ء میں ان کی چار جگہوں پر برطانوی ہندوستان میں آبادی موجود تھی.
١. ڈیرہ اسماعیل خان کے علاقے چودھواں میں جہاں ان کا سردار سمند خان تھا.
٢. والیہ میں جہاں ان کا سردار کاکڑ خان تھا
٣.گوئبہ کے علاقے میں جہاں ان کا سردار پُردل خان تھا
٤. کرم کے علاقے میں جہاں ان کا سردار باز گل خان تھا.
ایک مقامی شخص نے بتایا کہ یہ تمام پشتو بولنے والے لوگ ہیں. جنکی تعداد اُس زمانے میں ایک ہزار گھرانوں پر مشتمل تھی.
انیسویں صدی کے ایک انگریز پولیٹیکل آفیسر نے انھیں شیرانی کی چوہڑ خیل میں شامل کیا جوکہ ژوب کے نزدیک کے علاقے دہانہ پاس کے قریب واقع ہے..
مڑھیل کی علاقہ شیرانی میں آمد اور شیرانی قبیلہ سے اتحاد:
گزٹیر آف ژوب کے بیان کے مطابق شیرانی کا بیٹنی قبائل کے ساتھ مغل بادشاہ اکبر کے زمانے میں ایک زمینی تنازعہ چلتا رہا ۔خیال ہے کہ اسی زمانے میں مڑھیل قبیلہ شیرانی کاحلیف بنا ہوگا جس کے بعد شیرانیوں نے انھیں اپنے علاقے مانی خوا کے پہاڑی علاقہ میں زمین کی ایک بنجر پٹی دی۔کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ جب شیرانی کا وزیر قبائل کے ساتھ تنازعہ چل رہا تھا تو انھی دنوں میں مڑھیل افغانستان سے دامان ہجرت کررہے تھے تو ان پر وزیر قبیلہ نے تاخت کی جس پر شیرانی قبیلہ مڑھیل کی اعانت کو پہنچا یوں دشمن کا دشمن دوست کی مثل صادق آئی اور مڑھیل قبیلہ شیرانی کا ہمنوا بن گیا۔ضلع ڈیرہ اسمعیل کے علاقے درازندہ میں آج بھی ان مڑھیل پاوندہ کی زمینات موجود ہیں جو انھیں کئی صدیوں پہلے حصہ میں ملیں تھیں جب نیازی اور لوہانی دامان میں آئے تھے۔ان کے ساتھ ہی کونڈی نیازیوں کی بھی زمینات موجود ہیں۔ چونکہ بعد میں شیرانی قبیلہ میاں خیل قبیلہ کے ساتھ بھی محاذ آرائی میں الجھا رہا تو مڑھیل کو شیرانیوں پرایا نہیں محسوس ہونے دیا ۔
آخری بات یہ کہ علاقہ شیرانی کے صاحب علم مشران اور قبائلی سینہ بہ سینہ روایات کے مطابق بھی مڑھیل شیرانی نہیں اس طرح علاقہ شیرانی میں مقیم حریفال ، بختیار، کپیپ اور لونڑی وغیرہ قبائل بھی اصل شیرانی نہیں جبکہ وصلی طور پر ان میں ضم ہیں۔
نوٹ: چونکہ اب مڑھیل شیرانی قبائل کے ساتھ رہائش پذیر ہیں اور ان کے نفع و نقصان میں شریک ہیں تو بہت سے لوگ حتیٰ کہ مڑھیل خود بھی حقیقت سے ناواقف ہیں اور خود کو شیرانی گردانتے ہیں ۔لیکن شیرانی قبیلہ کے اہل علم افراد بھی اچھی طرح اس حقیقت سے واقف ہیں کہ مڑھیل کوچی ہیں اور کوہ شیرانی میں باہر سے نو وارد ہیں۔ تاریخ کی قدیم ترین کسی بھی کتاب میں مڑھیل کا شیرانی ہونے کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔
لیلیٰ نیازی کا واقعہ؛
کہتے ہیں کہ لیلیٰ نیازی جو کہ حیات افغانی کے مطابق مڑھیل کی دختر تھی. جس کا خاندان کابل شہر کے پاس آباد تھا. اسی زمانے میں1426ء میں کابل پر تیمرک شاہ نامی مغل حاکم تھا. اس نے کابل شہر کے گرد فصیل بنانے کا منصوبہ بنایا. جس پر حکم دیا گیا کہ تمام باشندے بلا اجرت کام کریں گے. حاکم تیمرک شاہ روزانہ کی بنیاد پر کام تفویض کرتا اور پھر شام کو کام دیکھتا. اگر کسی کے کام میں کوتاہی ہوتی تو اس کو فصیل میں زندہ چنوا دیتا تھا. اس خوف و بربریت کے سبب لوگ نالاں تھے اور سہمے رہتے تھے.
کہتے ہیں کہ ایک دن لیلیٰ نیازی نے اپنے شوہر کو کہا کہ میں بھی آپکے ساتھ مردانہ لباس زیب تن کرکے جاؤں گی تاکہ آپ کے ساتھ کام میں ہاتھ بٹا سکوں. کیونکہ وہاں اپنے قبیلہ کے لوگ ساتھ موجود ہونگے اس لیے کوئی مضائقہ نہیں.
جب شام کو تیمرک شاہ آیا اور کام کا معائنہ کرنے لگا تو چہرے کی نسوانیت کے سبب لیلیٰ نیازی نے اس سے پردہ کرلیا. جس پر تیمرک شاہ نے کہا پورا دن کام کرتی رہی ہو پردہ نہیں کیا. اب مجھے سے پردہ کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے. جس پر تیمرک شاہ گھوڑے سے اتر کر آگے بڑھا تاکہ چادر کھینچ کر دیدار کیا جائے. قریب ہوتے ہی لیلیٰ نیازی جو پہلے ہی حملہ کیلئے تیار تھی. یکبارگی میں ایسا کاری وار خنجر سے کیا کہ تیمرک شاہ وہیں ڈھیر ہوگیا. لوگوں میں سکتا طاری ہوگیا. اچانک دیگر لوگوں نے تیمرک شاہ پر سنگ باری شروع کردی جس کی وجہ سے تیمرک شاہ موقع پر مر گیا. جب تیمرک شاہ کے بھائی زیمرک شاہ کو اس کی خبر ملی وہ فوراً دوڑا چلا آیا. جس نے آتے ہی لیلیٰ نیازی و دیگر حامیوں پر حملہ کردیا جس کے نتیجے میں وہ سارے شہید ہوگئے. عوام میں آج بھی کابل کے قلعہ کوہ آسمائی میں ایک دیوار دیوار لیلیٰ نیازی سے جانی جاتی ہے. جس کے آثار روس جنگ سے پہلے تک موجود تھے.
موجودہ یعنی 2022ء میں انکے متعلق مجھے فی الحال کوئی معلومات دستیاب نہیں ہوسکی.
اگر کسی کے پاس مزید تفصیلات ہوں تو لازماً فراہم کریں شکریہ
ذیلی شاخیں؛
ان کی پانچ بڑی شاخیں ہیں
عبدالرحمن زئی، کمالزئی، ہارون زئی،ستور زئی/بودر زئی اور براہیم زئی
جبکہ حیات افغانی کے مطابق انکی ایک شاخ لیلیٰ نیازی بھی ہے جس کے بارے میں واقعہ اوپر درج ہوچکا ہے.
مشہور شخصیات؛
معلومات درکار ہیں.
نوٹ؛
قبیلہ مڑھیل کے شجرے اور تاریخ پر کافی کام ہونا باقی ہے تمام اہلیان قبیلہ سے التماس ہے کہ وہ آگے آئیں اور اس کار خیر میں اپنا کردار ادا کریں شکریہ
تحریر و تحقیق: نیازی پٹھان قبیلہ ٹیم