شجرہ و تاریخ قبیلہ تاجہ خیل

تعارف؛

قبیلہ تاجہ میانوالی کے نیازیوں کا ایک مشہور و معروف قبیلہ ہے جو کہ موچھ ،سوانس، خواجہ آباد کے علاقے میں دریائے سندھ کے کنارے سے لیکر کوہ نمک کی پہاڑیوں تک آباد ہے.

تاریخ ؛

تاجہ خیل قبیلہ کی مفصّل تاریخ تو جناب مرحوم اقبال خان نیازی صاحب نے تاریخ قبائل کتاب میں بڑی تفصیل سے لکھ دی ہے. مگر ہم یہاں آرٹیکل کی صورت میں مختصراً ڈھالنے کی کوشش کریں گے.
تاریخ نیازی قبائل کتاب کے مطابق سرہنگ نیازیوں کی شاخ ادریس کے پوتے میاں بوبوبک جس کا مزار سوانس پر واقع ہے جن سے میانوالی میں ادریس کی اولاد دو بڑی شاخوں میں منقسم ہوئی ایک بلو خیل کہلائی دوسری چوڑا خیل کہلائی.
چوڑا پشتو زبان میں دستی خنجر کو کہتے ہیں..

مزار بوبک فقیر


یہ چوڑا خیل آگے پانچ شاخوں میں منقسم ہوئی جس میں عباس خیل، الیاسی خیل، ارنی خیل و علی خیل کی اولادیں ہوئیں جو سوانس، یارو خیل، غلبلیاں والا وغیرہ پر آباد ہوئیں جبکہ پانچویں خواص خیل کہلائی جو کہ سوانس و موچھ میں آباد ہوئے..

لیکن اہلیان سوانس کے مطابق درج بالا مزار ایک سید زادہ کا ہے جو نیازیوں کی آمد سے بھی پہلے کا ہے۔اس بات میں وزن بھی ہے۔کیونکہ ادریس کی اولاد جو لکی مروت سے یہاں آئی انکی یہاں آمد کا زمانہ اکبر  بادشاہ کے آخری دور کا معلوم ہوتا ہے۔جبکہ اس وقت ادریس  ایک بڑا قبیلہ تھا۔جبکہ اقبال خان صاحب کے اپنے تحریر کردہ شجرہ کے مطابق بھی   بوبک بابا کا زمانہ حیات کہیں چودھویں صدی کا بنتا ہے ۔ جب سرہنگ نیازی ابھی ٹانک میں وارد ہورہے تھے۔
جیسا کہ ہم نے دوسرے آرٹیکلز میں لکھتے آئے ہیں کہ
جب سرہنگ نیازی موجودہ لکی مروت میں آباد تھے تو بہتر زمینات کی تلاش اور اکبر کے زمانے میں  سرہنگ نیازیوں کی شاخ ادریس کی اولادیں دریائے سندھ پار کرکے یہاں میانوالی آگئیں. اور انھی کی خالی کردہ زمینات پر بعد میں لکی مروت میں رہ جانے والے سرہنگ نیازیوں کی شاخ بھرت اور مہیار میں تنازعہ پیدا ہوا جو آگے چل کر لکی مروت سے نیازیوں کے مکمل انخلاء پر منتج ہوا.
میری تحقیق کے مطابق جن مروت اور نیازیوں کے جھگڑے کا بیان تاریخ میں ہوا ہے وہ دراصل بھرت بن سرہنگ کی اولاد کا ہے. کیونکہ ادریس بن سرہنگ کی اولاد اس زمانے تک یہاں میانوالی آ چکی تھی. ادریس بن سرہنگ کی اولاد میں بلو خیل، وتہ خیل تاجہ خیل ،شہباز خیل یارو خیل وغیرہ سب شامل ہیں.

تاجہ خیلوں کا اولین پڑاؤ اور زمانہ؛

تاجہ خیل بھی جب اکبر کے زمانے میں میانوالی آئے تو ان کا اولین پڑاؤ موجود موضع سوانس پر ہوا جو کہ تمام ادریس قبیلہ کا مرکز تھا. بعدازاں یہاں سے بلو خیل و وتہ خیل آگے چلے گئے. اور یہاں چوڑا خیل قبیلہ رہ گیا.. یہ چوڑا خیل قبیلہ یہاں کچھ عرصہ رہا لیکن پھر نئی زمینات کی تلاش میں یا دوسرے کسی سیاسی وجوہات کی بنا پر خواص خان کے تین بیٹوں یار بیگ خان، حاجی خان اور سمندر خان کی اولادیں سوانس چھوڑ کر دوسرے علاقوں میں ہجرت کر گئیں. اقبال خان نیازی صاحب کے مطابق یاربیگ خان اور سمندر خان کی اولادیں کوہاٹ چلی گئیں جبکہ حاجی خان کی اولاد ٹیکسلا کے علاوہ گڑھی افغانان میں آباد ہوگئی. لیکن میرے خیال میں ان تینوں افراد کی اولادوں کا کچھ حصہ احمد شاہ ابدالی کے ساتھ ہندوستان جنگوں میں بھی شامل ہوا تھا جنھیں ہندوستان کے علاقے ہوشیار پور میں رقبہ اور جاگیریں ملیں اور وہیں وہ آباد ہوگئے. کیونکہ وہاں پر ان نیازیوں نے ایک قصبہ موچھ پور کی بنیاد رکھی جو پرانے قصبہ کی یاد تازہ کرتا ہو.
جبکہ شجاع خان اور تاجہ خان کی وہیں سوانس پر مقیم رہیں. جب سوانس کا علاقہ چوڑا خیلوں پر کم پڑنے لگا تو  تاجہ خان کی اولاد نے جو قبیلہ کی سردار تھیں وہ مزید علاقوں پر قبضہ کرنے کیلئے دریائے سندھ کے زرخیز کنارے کی طرف متوجہ ہوئے. کیونکہ بلو خیل اور وتہ خیل قبیلوں نے بھی دریائے سندھ کے کنارے رہ کر کافی سکون پایا بہ نسبت پہاڑ کے دامن میں جہاں پانی و خواراک محدود میسر تھی.
تبھی تاجہ خیلوں نے موچھ کے قصبہ کو جو کہ نیازیوں کی آمد سے پہلے کا آباد تھا زیر قابو لانا شروع کردیا. اور یوں یہاں کے پرانے آبادکار گکھڑ، جاٹ، اعوان و دیگر کو بیدخل کرکے یا زیر دست کرتے ہوئے ان علاقوں میں آباد کاری شروع کردی.
تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ تاجہ خان نے دو نکاح کئے جن میں سے زوجہ اول سے چار بیٹے احمد خان، بلند خان، عالم خان اور نورمد خان پیدا ہوئے. جبکہ دوسری بیوی سے صرف دو بیٹے شاہ عالم خان اور جنید خان پیدا ہوئے..
میرے خیال کے مطابق شجاع خان کی بھی زیادہ تر اولاد یا تو کہیں اور نقل مکانی کر گئی یا کسی جنگ میں کام آگئی کیونکہ شجاع خان کی اولاد میں سے فقط خانجی خیل قبیلہ موجود ہے. جو کہ تاجہ خیل قبیلہ کا ایک فیصد بمشکل بنتا ہے..

تاجہ خان کی اولاد کا ذکر؛

اب ہم اپنے اصل موضوع تاجہ خیل پر آتے ہیں جیسا کہ قبل بتایا تاجہ خان کے چھ بیٹے تھے.
جن میں چار ایک ماں سے دو دوسری ماں سے..

تاجہ خان کی سوانس پر آباد اولاد کا ذکر؛

جب تاجہ خیلوں نے موچھ پر قبضہ کر لیا تو یہاں آباد کاری شروع کردی. مگر کچھ عرصہ بعد ہی کسی اندرونی تنازعہ کے سبب یا کسی اور وجہ کے جنید خان اور شاہ عالم خان جو کہ تاجہ خان کی دوسری بیوی مسمات شالی کے فرزند تھے اپنی اصل جنم بھومی سوانس پر لوٹ آئے.
جبکہ بقیہ چار بیٹوں نے یہاں موچھ کو آباد کیا.
سردار جنید خان کی اولاد آگے چل کر ہاتھی خیل، سلطان خیل، اشرف خیل جہان خیل، کلہ خیل، خلیل خیل، مہرباز خیل، سرفراز خیل میں تقسیم ہوگئی ہے جو سوانس پر آباد ہیں.
جبکہ شاہ عالم خان بھی کیونکہ سوانس پر چھوڑ آیا تھا. تبھی اس کی اولاد بھی یہاں خوب پھلی پھولی اور انھوں نے یہاں سوانس پر اپنے قبیلہ کیلئے رقبہ جات میں وسعت پیدا کی اور غیر اقوام کو یہاں سے بیدخل ہوجانے یا بصورت دیگر مطیع کیا.
اقبال خان نیازی صاحب کے مطابق سکھوں نے سوانس کے پٹھانوں کا جینا دو بھر کر رکھا تھا جب انگریز آئے تو پٹھانوں کو سکون میسر آیا. جب1857ء کی جنگ آزادی میں انگریزوں نے خوانین عیسٰی خیل کو اپنی مدد کیلئے پکارا تو شاہ عالم خیل میں سے سردار غفور خان اور سردار شکور خان بھی دہلی اپنے قبیلہ کے لوگوں کو لیکر نیازی لشکر میں گئے. جہاں انھوں نے کرنل نکلسن کے حضور اپنی خدمات پیش کرکے نام کمایا. کرنل نکلسن ان سے خوب خوش تھا اور اپنی ڈائری میں ان کے نام درج کئے تاکہ جنگ کے اختتام پر انھیں اس کارگزاری کا صلہ دیا جائے گا. مگر بدقسمتی سے کرنل نکلسن خود اس جنگ میں مارا گیا.
شاہ عالم خان کی اولادیں مزید درج ذیل قبائل میں تقسیم ہیں
عمر خیل، عظمت خیل، یارن خیل، موہانے خیل، سہراب خیل، توتومار، وزیر خیل، پہاڑ خیل، بہادر خیل، صورت خیل، مہر خیل، ظافر خیل اور شیر جنگ خیل وغیرہ شامل ہیں

موچھ میں آباد تاجہ خان کی اولاد کا ذکر؛

موچھ میں تاجہ خان کی زوجہ اول مسمات پٹھانی جس کا تعلق موشانی قبیلہ سے تھا آباد ہوئے جس کے بطن سے چار بیٹے احمد خان، بلند خان، عالم خان نورمد خان پیدا ہوئے.
جن کی اولادیں موچھ میں آباد ہوئیں.

سب سے بڑے بیٹے احمد خان کی اولاد کا ذکر؛

سردار احمد خان کی اولاد موچھ پر قبضہ پیش پیش تھی. کہتے ہیں کہ اس زمانے میں تاجہ خیلوں ایک سردار خان بیگ خان تھا. تاجہ خیل قبیلہ کی مستورات کچھ فاصلے پر واقع ایک کنویں سے پانی بھرنے جاتی تھیں. جہاں پر وہاں ایک کھلنڈری طبعیت کا شخص مسمی دُلا جس کی قوم بارے معلوم نہیں وہ جٹ تھا کہ کھوکھر. وہ تاجہ خیل کی مستورات کو تنگ کرتا تھا. کچھ عرصہ تو مستورات نے اس کی حرکتوں کو نظرانداز کیا لیکن بالآخر تنگ آکر انھوں نے اپنے مردوں کو بتایا کہ جب ہم پانی بھرنے جاتی ہیں تو ایک شخص بلاوجہ تنگ کرتا ہے جس پر تاجہ خیل بہت غضبناک ہوئے. سردار خان بیگ نے مستورات کے ساتھ جانے کا منصوبہ بنایا اور وہاں ایک جگہ چھپ کر خاموشی سے دُلا کی حرکات کو دیکھنے لگا جب دیکھا کہ دُلا آیا اور دھوتی باندھ کر نہانے لگ گیا اور مستورات کو پانی بھرنے نہیں دے رہا. تو سردار خان بیگ نے مستورات سے پوچھا یہی وہ شخص ہے. جس پر مستورات نے تائید کی. اس طرح سردار خان بیگ نے اس کو للکارا جس پر وہ گھمنڈ میں خان بیگ خان کو خاطر میں نہ لا کر بیٹھا رہا . خان بیگ خان نے غضبناک ہوکر تلوار سے اس کا سر ایک ہی ساعت میں جدا کردیا. ہر طرف کہرام مچ گیا. دُلا کے خاندان و قبیلہ کے لوگ قصاص لینے کیلئے نیازیوں کے پاس آئے لیکن نیازیوں نے انھیں کہا کہ قصاص تب بنتا جب وہ بلاوجہ مارا جاتا. کیونکہ اس نے ہماری ننگ کو للکارا تو ایسے شخص کا قتل ہم پر واجب ہے.. یوں اس جگہ کا نام دلیوالی پڑ گیا. دلیوالی کا قصبہ آج بھی موچھ سے پانچ کلومیٹر کی مسافت پر موجود ہے.

سردار شیر خان عالم خیل کی وفات کے بعد تاجہ خیلوں کی سرداری سردار موہانہ خان نیازی احمد خیل نے سنبھالی. خان بیگ خان کے بعد احمد خیلوں میں تاجہ خیلوں کی قیادت دوبارہ سردار موہانہ خان کے زمانے میں واپس لوٹی.
سردار موہانہ خان سکھوں سے تعلقات کو اچھی نظر سے نہیں دیکھتا تھا جس کی وجہ سے وہ لگان کی ادائیگی میں لیت و لعل سے کام لیتا تھا مگر تاجہ خیلوں کے دل میں وہ جگہ نہ بنا سکا. سردار موہانہ خان کے زمانے میں ہی تاجہ خیلوں نے بلو خیل اور عیسٰی خیل قبیلوں کے ساتھ کچہ میں واقع جد بندی کو مکمّل کیا. جس موہانہ خان نے دریا پار عیسٰی خیلوں کے حق کو تسلیم کیا جس کی وجہ سے بھی تاجہ خیل اس فیصلہ کو اچھی نگاہ سے نہیں دیکھتے تھے. تیسرا محرک پائی خیلوں سے جنگ میں شکست کھانا تھا جس میں سردار موہانہ خان بذات خود زخمی بھی ہوا تھا. بہرحال ان محرکات کو دیکھتے ہوئے تاجہ خیل اپنے سردار کے پیچھے مضبوطی سے کھڑے نہ ہوئے. ایک دفعہ جب سکھوں نے سردار موہانہ خان کو خراج کی رقم لانے کو کہا تو اپنوں نے سکھوں کے ساتھ ملکر تھانہ موچھ کے قریب ایک واقع کنواں کے پاس اچانک حملہ کرکے قتل کردیا. جس پر سکھ موچھ چھوڑ کر بھاگ نکلے جن کا تعاقب تاجہ خیلوں نے بھرپور کیا لیکن اندرون خانہ ملے ہوئے لوگوں کی وجہ سے کچھ جوابی کارروائی کرنے میں ناکام رہے. جس کے بعد سکھوں نے تاجہ خیلوں کا سربراہ ایاز خان بلند خیل کو مقرر کردیا.

احمد خیلوں کی شاخیں درج ذیل ہیں.
ہمایوں خیل، عالم خیل، عثمان خیل، رنباز خیل، نواب خیل، معظم خیل، مہرباز خیل، سرخرو خیل، بیگڑے، نور خیل، روشن خیل، شیرو خیل، گلباز خیل، اور شیرگل خیل وغیرہ شامل ہیں.

ذکر اولاد سردار بلند خان بن تاجہ خان ؛

سردار بلند خان تاجہ خیل کا تیسرا بیٹا تھا. آپکی اولاد پر مشتمل آج بھی موچھ میں بہت بڑا محلہ بلند خیل موجود ہے. اقبال خان نیازی صاحب کا تعلق بھی بلند خیل قبیلہ کی ذیلی شاخ احمد شاہ خیل سے تھا.
جب سردار موہانہ خان کو سکھوں نے شہید کردیا تو سکھوں نے بلند خیل قبیلہ سے سردار ایاز خان بلند خیل کو تاجہ خیلوں کا سربراہ مقرر کیا. ایاز خان نیازی نے باوجود بڑھاپے کے تاجہ خیلوں کو ایک چھت تلے یکجا رکھا اور اتحاد پیدا کرنے کی بھرپور کوششیں کیں.
آپکے انتقال کے بعد قبیلہ کی سرداری کا تنازعہ پھر اٹھ کھڑا ہوا. ایک طرف سردار موہانہ خان کا بیٹا شاہولی خان سرداری کا دعویٰ دار تھا تو دوسری طرف سکھ سردار ایاز خان کے بیٹے ظریف خان کو بنانا چاہتے تھے. بہرحال سکھوں کے ایما پر تاجہ خیلوں کا سردار ظریف خان بلند خیل بن گیا جبکہ سردار شاہولی خان بمقام کنڈل بنوں جاتے ہوئے سکھوں کے ہاتھوں شہید ہوگیا.
لیکن سردار ظریف خان کی سرداری سب تاجہ خیلوں نے دل سے قبول نہیں کی. دل امیر خیلوں نے قلنگ ادائیگی سے انکار کردیا. جس کی وجہ سے سکھوں نے موچھ پر ایک بار پھر حملہ کردیا.
جہاں پر دل امیر خیل اور دیگر حامی تاجہ خیلوں نے کچہ قلعہ میں بھرپور مزاحمت کی جہاں پر رنجیت سنگھ کا ایک رشتہ دار سوچیت سنگھ مارا گیا. جس پر سکھوں نے بھرپور جوابی کارروائی کی. بالآخر اقبال خان نیازی صاحب کے مطابق پکی شاہ مردان کے سادات، موچھ کے سادات اور برہمنوں کی مداخلت سے جنگ بندی ہوئی. موچھ کے سادات کی سرکردہ شخصیت سید اجڑا شاہ نے تاجہ خیلوں کے مطالبات سکھوں کے سامنے پیش کئے.
جو کہ درج ذیل تھے
١. تاجہ خیلوں کی سرداری ظریف خان کی بجائے عباس خان بلند خیل کو دی جائے.
٢.جس لگان وصولی کیلئے یہ تنازعہ ہوا وہ ہم ادا نہیں کریں گے.
٣. یہ صلح قرآن و گرانتھ صاحب پر ہوگی
اس طرح یہ جنگ اپنے انجام کو پہنچی. اور سرداری عباس خان بلند خیل کو مل گئی. یہ جنگ باوے والی برجی کے پاس لڑی گئی. جو اب مٹ چکی ہے.
سردار عباس خان کیونکہ اس جنگ کا پس پردہ محرک تھا. اس نے سرداری کو خوب سنبھالا اور سوانس پر آباد تاجہ خیلوں کو بھی ایک پلیٹ فارم پر یکجا کرنے کی کوشش کی.
سردار عباس خان نے پائی خیلوں کے ساتھ جو تنازعات تھے انکو بھی احسن طریقے سے حل کیا کیونکہ عباس خان کا سسرال پائی خیل تھا. اس کے علاوہ دیگر پڑوسی قبائل شہباز خیل، بلو خیل، تری خیل، اور بوری خیلوں کے ساتھ تنازعات کو ختم کرکے حد بندیوں کی تجدید کی.
اس حوالہ سے سردار عباس خان کی دوراندیشی کو داد دی جاتی ہے کہ اس کے بعد نیازی قبائل کے جھگڑے یکسر ختم ہوگئے ہر کوئی اپنی اپنی حدود کو جان گیا..
بہرحال کیونکہ سردار عباس خان واقعتاً ایک جی دار سردار تھا جس کی وجہ سے اس کو ایک واقعہ میں ایک بزرگ نے بددعا دی جس کے سبب کو جہان فانی سے کوچ کر گیا. اس زمانے میں سکھوں کا راج اپنے اختتام کو پہنچ چکا تھا.
بلند خیل قبیلہ کی درج ذیل شاخیں ہیں؛
نامدار خیل، مقرب خیل ہندال خیل ،احمد شاہ خیل، محمد یار خیل، برخوردار خیل، اللہ یار خیل، قتال خیل کٹامیر خیل ،علی خان خیل، مہر خان خیل، درگاہی خیل، فتح خیل، پرائیں خیل، درویش خیل، فقیرے خیل، عباس خیل، ننڈگھڑیے، بھریم خیل، بکھو خیل، اشپر خیل، عزت خیل، بڈھے خیل، گولے خیل، اور شنی خیل، کبیر خیل، ظریف خیل، کمال خیل، جہانگیر خیل، خوشحالی خیل،ککے خیل، دموں خیل وغیرہ شامل ہیں.

اولاد نورمد خان بن تاجہ خان ؛

نورمد خان تاجہ خان کو مسمات پٹھانی سے سب سے چھوٹا بیٹا تھا.
آپکی اولاد موضع مواز والہ،سلطان والا اور دیگر موچھ کے نواح میں آباد ہے.
نورمد خیلوں میں سے سردار مدت خان نامور ہوا. سردار مدت خان کو تاجہ خیلوں کی سربراہی سردار عباس خان کی وفات کے بعد انگریزوں کے زمانے عین شروع کے زمانے میں ملی جب سکھوں کا اقتدار غروب ہورہا تھا. آپ نے اپنی قوم کے لوگوں کو موچھ کے پاس موجود تاجہ خیلوں کی زمینات پر آباد کیا اور اسی زمانے میں سلطان والا، مواز والہ مدت والا وغیرہ ڈیرہ جات کی بنیاد رکھی. 1857ء میں جب یہ علاقہ ضلع بنوں میں شامل تھا تب ضلع بنوں کے ڈپٹی کمشنر میجر نکلسن کو کرنل کے عہدے پر ترقی دے کر دہلی میں بغاوت کو کچلنے کیلئے بلایا گیا جبکہ اس زمانے میں بنوں کا ڈپٹی کمشنر میجر کاکس تھا. میجر کاکس کو حکم ہوا کہ بنوں کے علاقے سے لشکر ترتیب دےکر شاہپور (موجودہ سرگودھا )رپورٹ کرے۔
میجر کاکس نے برطانوی ماتحت علاقے سے مروت و نیازی خوانین کو حکم دیا کہ برطانوی سرکار کی اعانت کیلئے لشکر تیار کئے جائیں جو ہندوستان جا کر برطانوی حکومت کے خلاف جاری بغاوت کو کچلنے میں مدد دے سکیں.
اس سلسلے میں نیازیوں کا لشکر نوابزادہ سرفراز خان نیازی صاحب کی کمان میں ترتیب دیا گیا.. جس میں موسی خیل، تاجہ خیل اور بلو خیلوں کے الگ الگ ذیلی لشکر موجود تھے.
اقبال خان نیازی صاحب کے مطابق اس وقت تاجہ خیل لشکر کی سربراہی سردار مدت خان کررہے تھے جب یہ لشکر شاہ پور پہنچا اور وہاں پر کرنل نکلسن نے لشکر کشی کی وجوہات بیان کیں اور دہلی میں جاری بغاوت بارے بیان کیا تو. سردار مدت خان اٹھ کھڑا ہوا اور کرنل نکلسن کو کہا کہ بلاشبہ مغل ہم پٹھانوں کے دشمن ہیں لیکن ہم مسلمان ہوکر کسی دوسرے مسلمان کے خلاف کسی غیر مسلم کا ساتھ نہیں دے سکتے.. یوں وہ اپنا لشکر واپس موچھ لے آیا.
لیکن میرے خیال میں سردار مدت خان کے وہاں نہ جانے کی وجوہات کچھ اور تھیں کیونکہ دہلی کی جنگ آزادی قطعی طور پر پنجاب یا پشتون خوا کے علاقوں سے کوئی تعلق نہیں رکھتی تھی. نہ ہی یہ مسلمانوں کی جنگ تھی کیونکہ اس وقت گزرے سرسید احمد خان جو کہ چشم دید گواہ ہیں اور دیگر مولانا شبلی نعمانی کے مطابق وہ ہندوستانی (بشمول ہندو سکھ) و انگلشیہ حکومت کے مابین تھی.
بہرحال اس بات پر برطانوی حکومت نے سردار مدت خان کو امتیازی سلوک کا نشانہ بنایا اور ان سے جاگیر ضبط کر لی گئی. بعدازاں ٹوانہ خاندان کی مداخلت سے سردار مدت خان کو زمینات واپس مل گئیں. اور انگریزوں نے سرداری نظام کو یکسر طور پر ختم کرکے اپنے منظور نظر لوگ بطورِ ذیلدار مقرر کر دیئے.
نورمد خیل قبیلہ کی ذیلی شاخیں کچھ یہ ہیں.
کڑاک خیل، سلطان خیل، مواز خیل، میرے خیل، عظیم خیل، پیندے خیل، جہانگیر خیل، محمد خیل، آدم خیل،دلاسہ خیل، غازی خیل، دوسے خیل، شرابت خیل، نواب خیل، بیگو خیل، سہراب خیل، عیسب خیل، شنے خیل، خانزادہ خیل، جانے خیل، روزی خیل، اور سردار خیل وغیرہ شامل ہیں.

اولاد عالم خان بن تاجہ خان؛

سردار عالم خان تاجہ خان کا دوسرے نمبر کا بیٹا تھا.
سکھوں کے زمانے میں سردار دھنائی خان عالم خیل نامور ہوا جس نے سکھوں کو خراج دینے سے انکار کیا. جبکہ دیگر لوگ سردار دھنائی خان کے اس فیصلے سے انکاری رہے. جس کی وجہ سے سردار دھنائی خان تنہا اپنے قبیلہ کی معیت میں اس جنگ میں شامل ہوا. لیکن افرادی قوت نہ ہونے کے باعث جنگ میں شہید ہوگیا. جبکہ آپ کے بیٹے شیر خان کو سکھ یرغمال بنا کر ساتھ لاہور لے گئے. بعدازاں تاجہ خیلوں کی کوششوں سے رانی جنداں کے کہنے پر شیر خان کو نہ صرف رہا کیا گیا بلکہ تاجہ خیل قبیلہ کی سرداری بھی سونپ دی گئی. سردار شیر خان کے زمانے میں تاجہ خیلوں نے سکھوں کے ساتھ تعاون کیا.
سردار شیر خان کی وفات کے بعد تاجہ خیلوں کی سرداری سردار موہانہ خان نیازی احمد خیل نے سنبھالی. یوں سردار عالم خیلوں سے نکل کر احمد خیلوں میں چلی گئی.
سردار دھنائی خان کے ساتھ عالم خیلوں کی کافی افرادی قوت کام آئی اور ان سے کچھ رقبہ جات سکھوں نے بطورِ سزا چھین لئے جو کہ سردار شیر خان کے زمانے میں واپس مل گئے جبکہ کچھ پر دیگر تاجہ خیلوں نے قبضہ کرلیا جو پھر کبھی واگزار نہ ہوسکے. اسی وجہ آج کے زمانے میں عالم خیلوں کی آبادی بھی کم ہے اور رقبے بھی.
عالم خیلوں کی ذیلی شاخیں کچھ یوں ہیں.
دھنائی خیل، شہالم خیل، محمد خیل، ہاتھی خیل، شیر جنگ خیل، موہانے خیل، خلیل خیل، محمد یار خیل، وغیرہ شامل ہیں.

تاجہ خیل انگریزوں کے زمانے میں؛

سکھوں کے بعد تاجہ خیلوں کے انگریزوں سے تعلقات بہتر رہے جس کا ثبوت ہمیں گزٹیر آف بنوں اور گزٹیر آف میانوالی میں ملتا ہے جہاں وہ انھیں اچھا جنگجو اور قابل اعتبار لوگ سمجھتا ہے. بعد کے زمانے میں ضیاء برادران نے برطانوی حکومت کے مختلف محکموں میں ملازمت اختیار کرکے تاجہ خیلوں کو سنوارا. حمید اللہ خان ضیاء اسلام پوری نے تاجہ خیلوں کو علم کی راہ پر چلایا جنھوں نے موچھ میں علمی درسگاہوں کی بنیاد رکھنے میں مرکزی کردار ادا کیا جبکہ کرنل مطیع اللہ خان نے تاجہ خیلوں کو برطانوی محکمہ پولیس اور فوج میں بھرتی کروانے کیلئے ابھارا یوں ہم آج دیکھتے ہیں کہ موچھ کے لوگ جہاں تعلیم میں دیگر نیازی قبائل سے آگے ہیں وہیں سرکاری محکموں میں بھی انکی تعداد زیادہ ہے.

شخصیات؛

یوں تو ہم نے آرٹیکل میں کچھ مشہور شخصیات کو تاریخ کے تناظر میں بیان کردیا ہے. لیکن قیام پاکستان کے تاجہ خیلوں نے خوب نام کمایا کئی ڈاکٹرز، میجر، کرنل، استاد، وکلاء اور سرکاری افسران و کاروباری شخصیات کو جنم دیا. جن پر پورے نیازی قبیلے کو فخر ہے.


جن میں سے کچھ افراد یہ ہیں.
کرنل ریٹائرڈ خان لطف اللہ خان نیازی، طارق عباس خان نیازی (کراچی)، ربنواز خان نیازی (ایس پی)، احمد نواز خان نیازی (ایس پی) خالد خان نیازی (پوسٹ ماسٹر جنرل)، فتح خان نیازی (ڈی آئی جی پولیس)، ڈاکٹر نصرت اللہ خان (ماہر امراض چشم)، میجر جنرل رفیع اللہ خان نیازی،(سابق ڈجی آئی بی)

میجر جنرل رفیع اللہ خان نیازی

برگیڈیر اسلم خان نیازی، کرنل عشرت خان نیازی، کرنل عبداللہ خان نیازی، کرنل واصف خان نیازی، کرنل صفی اللہ خان نیازی، کرنل نصرت اللہ خان نیازی، ڈی آئی جی عثمان خان نیازی، عنایت اللہ خان نیازی (ایکسین) حاجی اسفند یار خان (مالک اسفند پیٹرولیم)، ایڈووکیٹ ظفر اقبال خان،ڈاکٹر صلاح الدین خان نیازی (ایم پی اے)،

مولوی عظمت اللہ خان (سیاسی و سماجی شخصیت)، ڈاکٹر امیر احمد خان نیازی، ڈاکٹر ساجد خان نیازی، پرنسپل عبدالغنی خان نیازی، غلام جعفر خان نیازی منہاج سکول)،

مولوی عظمت اللہ خان

ڈاکٹر قیصر عبید خان (بانی عبید نور ہسپتال)،ڈاکٹر حینف نیازی (بانی سماجی تنظیم موساز)،ڈاکٹر شفیع اللہ نیازی (پی ایچ ڈی امریکہ)، وغیرہ وغیرہ شامل ہیں

ذیلی شاخیں؛

تاجہ خیل قبیلہ کی ذیلی شاخوں کا بیان مفصل انداز میں اوپر گزر چکا ہے.

:نوٹ

یہ بات یاد رہے کہ زیر دستیاب شجرہ جات صرف وہ ہیں جو تاریخ نیازی قبائل کتاب کے مؤلف حاجی اقبال خان نیازی صاحب مرحوم نے اپنی کوشش سے اکھٹے کئے یا جن لوگوں نے ذاتی دلچسپی لیکر کر شجرے بنا کر ان تک پہنچائے.ان شجروں کو قطعی طور پر مکمّل نہ سمجھا جائے باوجود اس کے کہ اقبال خان صاحب خود تاجہ خیل تھے۔ انھوں نے پور کوشش کی کہ کوئی شاخ یا کسی شاخ کا فرد رہنے نہ پائے .. لیکن اگر پھر بگی کسی کا زیر دستیاب شجرے میں نام موجود نہیں تو اس کا ہرگز مطلب یہ نہیں کہ وہ نیازی نہیں یا تاجہ خیل نہیں. بلکہ یہ ان افراد کے شجرے ہیں جو مؤلف کو دستیاب ہوئے وہ شامل کردیئے۔

ایڈمن نیازی پٹھان قبیلہ

www.NiaziTribe.org

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

3 تبصرے “شجرہ و تاریخ قبیلہ تاجہ خیل

  1. السلام علیکم مجھے بہت اچھا لگا اپنی قوم کی تاریخ پڑھ کر
    شہزاد اصغر تاجہ خیل سوانس کراچی سے

اپنا تبصرہ بھیجیں