بہادرشاہ ظفر کاکا خیل یوں لکھتے ہیں شیرشاہ کے یہ ارمان اس کی پالیسی اور اس کے منصوبوں کے آیئنہ دارہیں شیرشاہ ایک پشتون حکمران تھا اور بڑی گہری نظر رکھتاتھا وہ پشتونوں کے قومی خصائص سےبخوبی واقع تھا اسے اچھی طرح معلوم تھا کہ روہ پشتونخوا میں پشتونوں کی طاقت آپس کی قبائلی اور خاندانی عداوتوں اور دشمنیوں بدلے کاقانون انکےبےجادستور ورسوم میں ختم ہوجاتی ہے اورقومی حیثیت سے انہیں قوم سے وفاداری اور سلطنت کے استحکام کیلیےنہیں چھوڑتی اسلیے اگرپشتون پہاڑوں سے اتر آئیں اور پنجاب کے سرسبز زمینوں میں آباد ہوجائیں اور نظم وضبط سے معمور زندگی گزاریں تو ان کی زندگی بدل جائے گی اور حقیقت میں پشتون حکومت کے بازو بن جائیں گے اگر شیرشاہ کے خواہش کے مطابق ایسا ہوجاتا توآج پشتونوں کی حالت بدلی ہوئی ہوتی شیرشاہ کی چوتھی خواہش اس کی قوم پروری اور جزبہ پشتون نوازی کی آیئنہ دارتھی پنجاب سے ہندوستان واپسی کے وقت شیرشاہ نےہیبت خان نیازی کو پنجاب وسندھ کے صوبوں کا گورنرمقرر کیا اور اس کی ماتحتی میں اپنے بھتیجے مبارک خان کو نیازی پشتونوں کے نئےمفتوحہ علاقوں کا حاکم مقرر کردیا مبارک خان کی حکومت کےزمانےایک ایساواقعہ پیش آیا جو قبائلی پشتونوں کی زندگی کا آئینہ دار ہے نیازی قبیلہ کی جمال خیل شاخ سنبل اور عیسی خیل دو شاخوں میں منقسم ہے اور یہ پشتونوں کا اہم قبیلہ ہے یہ تو پاکستان بننے کے بعد اس کو صوبہ سرحد پختونخوا سے جدا کرکے پنجاب میں شامل کردیا جس کےسبب یہ بیچارے پشتو بھول گیے اور اب پنجابی میں بات کرتے ہیں مگر اب بھی خود کو پشتون سمجھتے ہیں اور ان کی خون کی گرمی ابھی کم نہیں ہوئی القصہ قبیلہ سنبل میں اللہ داد خان نیازی نامی سردار کی ایک ماہ رخ بیٹی تھی جو بےحد خوبصورت تھی اس کی حسن وجمال کی شہرت جب پورے علاقے میں پھیل گئی بہت سے جوان اس کےطالب اور خواست گار ہوگئے ایک دفعہ شیرشاہ کے بھتیجے مبارک خان نے بھی اسے اتفاقًا دیکھ لیا اور مبارک خان سوری اس لڑکی کودل دے بیٹھا اورپھراسے حاصل کرنےکی کوشش بھی شروع کردی مبارک سوری اگرچہ پشتون تھا مگر والدہ کی طرف سے غیر پشتون تھا جو کہ ہندوستان میں پیدا ہواتھا اور اس نے کبھی روہ پشتون خوا نہیں دیکھاتھا قبایئلی پشتونوں کےرسم رواج سے بےخبرتھا اور اپنے آپ کو حاکم اور شیرشاہ کا بھتیجا بھی سمجھتا تھا اسلیے بہت مغرور بھی تھا اسلیےاس نےچپکےسے اللہ داد نیازی کے پاس اپنے لیے پیغام بھیج دیا اللہ داد خود مبارک کے پاس آیا اور اس سے کہا خان آپ کے حرم میں بہت سی خوبصورت لڑکیاں ہوں گی جو شریف مہذب متمدن اورتہذیب یافتہ ہوں گی آداب شاہانہ کےاصول اور محلاتی زندگی کے رسوم اچھی طرح واقف ہوں گی اور میری بیٹی بیچاری گاؤں کی ایک دیہاتی لڑکی ہے جو صرف روہ پختون خوا زندگی اور تمدن سےآشناہے وہ نہ تو شاہی محل کی زندگی کو سمجھ سکتی ہے اور نہ شاہی محل کےقابل ہےآپ کے اور اس کے درمیان بہت فرق ہے اور یہ شادی کوئی مناسبت نہیں رکھتی اور نہ کامیاب ہوگی اسلیے میں آپ کاپیغام قبول نہیں کرسکتا اگرمبارک خان سوری پشتونوں کےرسم ورواج سے وقف ہوتا تواس بات کو آگے نہ بڑھاتا لیکن وہ اپنی حاکمیت کے گھمنڈ میں تھا تواس نے سنبل قبیلے کےلوگوں کو پریشان کرنا شروع کردیا تاکہ سنبل قبیلہ مجبورہوکر اللہ داد کو مجبور کردیں اور میرا کام بن جائے لیکن یہ اس کی غلط فہمی تھی کیونکہ جب یہ نیازی قبیلہ مبارک کےناجائز دباؤ ڈالنے اور ستانے سے پریشان ہوگیا توانہوں نے پختونوں کے رواج کے مطابق تین بوڑھوں کا جرگہ مبارک کےپاس بھیج دیا بات چیت شروع ہوئی یہ بات تو تسلیم ہوگئی کہ پہلے بھی نیازیوں اور سوریوں کے درمیان بہن بیٹی کا لینا دینا ہوچکاہے لیکن جرگے نےکہا کہ وہ رشتے برابری اورہمسری کےبنیاد پرہوئے تھے یعنی اصیل کی بیٹی اصیل کودی گئی تھی اور باندی کی بیٹی باندی کے بیٹے کودی گئی تھی اللہ داد کی بیٹی اسلیے آپ کونہیں دی جاسکتی کہ آپ اللہ داد کے ہمسر نہیں اور نیازیوں نے یہ اسلیےکہا کہ مبارک شیرشاہ کا بھتیجاتھا مگراس کی ماں ایک کنیزتھی۔ اس لیے نیازیوں نے مبارک سے کہا اگرتجھے واقعی ایک نیازی لڑکی کےخواہش مند ہیں تو غلام لڑکی آپ کو دی جاسکتی ہے مبارک جرگے کی اس بات پر اور زیادہ غصہ ہوا مگر نیازیوں کے جرگےنےاس سے کہا اب کچھ بھی ہوجائے یہ کام ہونےکا نہیں چاہے اس میں ہم سب تباہ ہوجائیں مبارک نے جرگےکی معقول بات نہیں مانی اور پھر نیازیوں کواورتنگ اور ستاناشروع کیااور نیازیوں کےایک گاؤں پرحملہ کردیا انہیں لوٹا اور ان کی کنیزکوبھگالایا اس واقعہ کےوجہ سے نیازیوں کے تمام قبیلوں کی سربراہوں کاجرگہ مبارک کےپاس آیا اور قبایل کےرسم ورواج کے مطابق جرگےکےاراکین سےانکا اسلحہ باہر رکھوادیا گیا جرگہ نے بات چیت کااغاز کیا نیازیوں نے اپنی کنیز کی واپسی کامطالبہ کیا اور ساتھ ہی اللہ داد کی بیٹی کارشتہ دینے سے قطعی انکار کیااور اس سے کہا تم نے جو یہ کام کیاہے یہ پشتونوں کی روش اور روایت کے سراسر خلاف اور ناجائز ہے۔اور چونکہ ہماری اور تمھاری غیرت ننگ وناموس مشترک ہے اس لیے تم ہماری بے عزتی مت کرو لیکن مبارک اپنی وہی ایک بات پر قایم تھا آخر نیازیوں کے جرگہ نے بھی اپنا منہ کھولا تم ہندوستان میں پیدا ہوئےہو وہیں پلےبڑھےہو تم نہیں جانتے کہ پشتونوں کے رسم رواج اور روایات کیا ہیں اج تک ہم نے سناہے کہ بھیڑ گڈہ نے کسی کو کاٹا ہو تم ہمیں کاٹنے کی کوشش مت کرو اب تک جوہم خاموش رہے یہ تمہارے چچا شیرشاہ کا لحاظ تھا مگرتم چونکہ کنیززادے ہو پشتونوں کی روایات کو نہیں سمجھ سکتے اپنی عزت کونہیں سمجھتے اگر تمھے اپنی زندگی پیاری ہے تو ہماری لڑکی کوحیااور پردے میں لوٹادو اس کے جواب میں مبارک نے اپنے ملازمین کو حکم دیاکہ ان لوگوں کو یہاں سے زبردستی نکال باہرکرو اس وقت اگر چہ نیازی اکابرین بالکل نہتے تھے اٹھ کرمبارک اور اس کے نوکروں پر ٹوٹ پڑے لاتوں مکوں سے مبارک سمیت سب نوکروں کو مارڈالا اس واقعے کی ادھوری اطلاع جب شیرشاہ سوری کوملی تو اس نے ہیبت خان نیازی جو کہ پنجاب کاگورنر تھا لکھا پشتونوں میں سوریوں کا قبیلہ بہت چھوٹاہے اگر پشتون اس طرح ایک ایک سوری کو مارنے لگے تو ہندوستان میں ایک سوری بھی زندہ نہیں بچے گا شیرشاہ سوری چونکہ اصل واقعے سے بے خبر تھا اس کو صرف بھتیجے کی قتل کی اطلاع دی گی تھی شیرشاہ نے لکھا ہیبت خان سنبل چونکہ تمہارا اپناقبیلہ ہے تم قاتلوں کو ایسی سزا دو کہ وہ پھر اپنے حاکم کو جان سے مارنے کی جرآت نا کرسکیں جب نیازیوں کو یہ اطلاع ملی تو وہ نوسو گھرانے وہاں سے دور پہاڑوں چلے گیے یہ جگہ ہیبت خان کے دست رست میں نہیں اتا تھا کیونکہ شیر شاہ کی حکومت ابھی وہاں تک نا پہونچی تھی اسلیے وہ سوچنے لگا کہ ابھی کیا کروں اگر سزا نادی توشیرشاہ مجھے گورنری سےہٹادے گا پھر ایک ترکیب اس کے ذہن میں ائی اور اس نے اس ترکیب پرعمل کرنے کافیصلہ کردیا ۔چونکہ ہیبت خان نیازی شیرشاہ کابڑا وفادار اور اعتباری امیرتھا اس کو خدشہ پیدا ہوا کہ کہیں شیرشاہ میری ملی بھگت نہ سمجھ لے ورنہ مجھے گورنری سے ہٹادےگا تواس نے ایک چال چلی وہ صرف شیرشاہ کے سامنے سرخرو ہونے کیلیے اس نے یہ گھٹیا چال چلی ہیبت خان نیازی نے اپنے قبیلے والوں کو پیغام بھیجا کہ تم لوگ میری ضمانت اور اوراعتماد پراپنے گھروں کو واپس اجاو تو میں تمہارے معاملے میں صلح صفائی سے معاملہ نمٹادوں گا ہیبت خا ن شیرشاہ کے اگے اپنے سرخروئی کیلیے اپنے قبیلے سے غدراری پرامادہ ہوگیا نیازیوں نے ہیبت خان کے وعدے پر اعتبارکیا اور نوسو خاندان پہاڑوں سے اتر ائے لیکن ہیبت خان نے ان کے اتے ہی ان کو بات تک ناکرنے دی اپنے بے شمار سپاہی بھیج کر ان کےنرینہ افراد کو قتل کردیا اور خواتین کو شیرشاہ کے پاس بھیج دیا نیازی اعتبار میں مار کھاگئے 1546 میں شیرشاہ نے میواڑ کا قلعہ فتح کیا تھا اور قلعہ رہتاس کا بنیاد رکھنے کے بعد پھر جہاد میں مشغول ہوگیاتھااور کافی کامیابیاں حاصل کی تھیں اب اس نے کالنجر کے قلعہ کا محاصرہ کیا ہوا تھا کہ اس دوران نیازیوں کی خواتین اس کے پاس پہونچائی گئیں شیرشاہ کو جب اس واقعےکی اطلاع ملی تواس کو بہت رنج ہوا اور بہت غصہ ایا اس نے کہا ہیبت خان پشتونوں میں اج تک ایسی ذلیل حرکت کسی نے نہیں کی ہے جیسے تم نے کی ہے میں ان خواتین کے ساتھ جو میری ماں بہنیں ہیں انصاف کروں گا تمہیں حساب دینا ہوگا میں تمہیں گورنرنہیں رہنے دوں گا ان خواتین کو بہت ہی عزت سے بٹھایا اور خود قلعے کے محاصرے کی طرف چلا گیا مگراللہ کو کچھ اورہی منظور تھا شیرشاہ جہاں کھڑے ہوکر قلعے کو دیکھ رہاتھا وہاں بارودکا ذخیرہ رکھا تھا قلعے کے دیوار پر توپ کا گولا لگ کر ٹکراکرایا اور بارودکے زخیرے پر گرگیا بارود ننےنے اگ پکڑلی چونکہ شیرشاہ وہیں کھڑا تھا اس اچانک اگ لگنے سے شیرشاہ بھی جل گیا اور اس کے ساتھ پیر خلیل خیل ملا نظام اور دریاخان سروانی بھی جل گیے سب لوگ شیرشاہ کے طرف دوڑے شیر شاہ نے کہا مجھے چھوڑو پہلے قلعہ کو فتح کرو اخر کار قلعہ فتح ہوگیا اور لوگ شیرشاہ کو مبارک دینے ائے کہ قلعہ فتح ہوگیا شیر شاہ نے جب یہ سنا تو کہا الحمداللہ اور اس کی روح جسم سے پرواز کرگئی اور یوں شیر شاہ سور ہیبت خان نیازی کی تادیب کرنے کی خواہش پوری نہ کرسکا۔لیکن قدرت نے ہیبت خان نیازی کو اس کی سزا دی جب کشمیریوں نے ہیبت خان کو دھوکہ دیکر قتل کیا۔۔۔
حوالہ جات: تاریخ شیر شاہی، تاریخ فرشتہ ، تاریخ داؤدی
تحریر: سرہنگ نیازی