ہیبت خان نیازی جو سولہویں صدی عیسوی میں تاجدار ہند شیر شاہ سوری کا سب سے طاقتورمعتمد خاص تھا اور فوج کا سپہ سالار تھا اور پنجاب کا گورنر تھا اس کا تذکرہ نیازی برادری بڑے فخر سے کرتی ھے مگر تصویر کا ایک دوسرا رخ بھی ھے جس میں سامانِ عبرت ھے۔
ہیبت خان نیازی کا تعلق نیازیوں کے کس شاخ سے تھا حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جاسکتا مگر گمان غالب ھے اس کا تعلق عیسٰی خیل شاخ سے تھا ۔
میں یہاں ان کے کارناموں کے بجائے اس کی شخصیت کا ایک تاریک پہلو پیش کرنے جا رھا ھوں وہ اس لئے کہ اس نے اقتدار کےہوس اور نشے میں اپنی ہی برادری سے نہ صرف غداری کی بلکہ ان کا قتل عام بھی کیا ۔
ہیبت خان نیازی نے مغل حکمران ہمایوں کے مقابلے میں چونسہ اور قنوج کی جنگوں میں بحثیت سپہ سالار بہادری کے جوہر دکھائے اور فتح حاصل کی اورسوری حکومت کے قیام کی راہ ہموار کی جس کے عوض شیر شاہ سوری سے انہیں نہ صرف اعظم ہمایوں کا خطاب ملا بلکہ صوبہ لاہور و ملتان کا گورنر بنایا جس میں موجودہ پاک و ہند کا پنجاب،سندھ اور کشمیر کے علاقے شامل تھے۔
اتنے بڑے علاقے کی گورنری میں اس کے دو عدد نائبین تھے مبارک خان سوری اور امیر حمید خان کاک
مبارک خان سوری جو شیر شاہ سوری کا حقیقی بھتیجا تھا ان کے ذمہ علاقہ روہ کی نگرانی تھی یعنی شمالی پنجاب تا پشاور جس میں میانوالی کا علاقہ بھی شامل تھا ۔
اس علاقے میں اس وقت نیازیوں کے دو بڑے قبیلے عیسٰی خیل اور سنبل آباد تھے جبکہ سرہنگ قبیلہ کا مسکن ٹانک تھا۔
سنبل قبیلےکے سردار اللہ داد خان سنبل کے مبارک خان سوری سے قریبی روابط تھے جو اس علاقے کا حاکم بھی تھا ، ہیبت خان نیازی کا نائب بھی تھا اور شیرشاہ سوری کا بھتیجا بھی تھا ۔
اللہ داد خان سنبل کی ایک بیٹی “سندھی”تھی جس کے حسن کے چرچے زبان زد خاص وعام تھےـ
مبارک خان سوری نے اس لڑکی کا رشتہ اپنے لئے مانگا مگر اللہ داد خان سنبل نے رشتہ دینے سے انکار کیا مبارک سوری نے اس انکار کو اپنی توھین سمجھا اور اللہ داد کو نشان عبرت بنانے کی دھمکیاں دیں ۔
اللہ داد خان نے سنبل قبیلے کا جرگہ بلایا اور تمام صورت حال سے قبیلے کو آگاہ کیا ۔
سنبلوں نے اللہ داد کے فیصلے کی تائید کی اور یہ طے ہوا کہ مبارک سوری اگرچہ حاکم ھے مگر ایک باندی (وینجے) کا بیٹا ھے اور کسی باندی کے بیٹے کو رشتہ دینا نیازی روایات کے خلاف ھے ۔
اس کے بعد مبارک سوری کے پاس ایک وفد بھیجا یہ سمجھانے کے لئے کہ وہ سنبل برادری کو تنگ کرنے سے باز آجائے اللہ داد خان اکیلا نہیں ھے تمام سنبل اس کے شانہ بشانہ کھڑے ھیں لہٰذہ ان کے خلاف انتقامی کاروائی کرنے کی غلطی نہ کرے ۔
وفد مبارک سوری کے پاس گیا اور جرگہ کے فیصلے سے آگا ہ کیا ۔
وفد کے مشر نے مبارک سوری سے کہا کہ نیازی اور سوریوں کے آپس میں رشتے ضرور ھوئے ھیں لیکن ان رشتوں میں برابری کا خیال رکھا گیا ھے آزاد کا رشتہ آزاد اور غلام کا رشتہ غلام سے ھوا ھے اور یہ شعرعرض کیا؎
کند ہم جنس بہ ہم جنس پرواز
کبوتر بہ کبوتر، شہباز بہ شہباز
(ہم جنس ہم جنس کے ساتھ پرواز کرتے ھیں کبوتر کبوتر کے ساتھ اور باز باز کے ساتھ )
وفد نے مبارک سوری کو یہ آفر بھی دی کہ آپ کی طرح ہمارے قبیلے میں بھی ایک لڑکی باندی(وینجے) کے بطن سے ھوئی ھے اگر چاھو تو ہم اس کا رشتہ دے سکتے ھیں ۔
لیکن مبارک سوری اقتدار کے نشے میں چور تھا اور اس کے منہ پر اسے باندی کی اولاد کہا گیا جو اسے بہت برا لگا ۔
وفد کے جانے کے بعد مبارک سوری سپاہیوں کا لشکر لے کر سنبلوں کے ایک گاؤں پر چڑھ دوڑا گاؤں کو تاراج کیا اور وھاں سے ایک باندی کو اغواء کرکے لے آیا۔
اس پر سنبلوں کا دوبارہ جرگہ ھوا اور ایک وفد کو دوبارہ مبارک شاہ کے پاس بھیجا گیا اور اس سے کہا گیا کہ ہمیں اپنی عزت بہت پیاری ھے لڑکی کو واپس کردو اور دوبارہ ایسی نیچ حرکت نہ کریں ۔
مگر مبارک سوری نے جواب دیا جو کرنا ھے کرلو جس پر وفد کے مشر نے غصے میں آکر مبارک سوری سے کہا
” تُو ہندستان میں پیدا ھوا ھے اس لئے پشتونوں کے طور طریقوں سے ناواقف ھے ۔اب تک کبھی بگلے کی اتنی جرآت نہیں ھوئی تھی کہ شھباز کو ستائے ۔ ھم صرف تیرے چچا شیر شاہ سوری کی وجہ سے تم کنیز زادے (وینجے کی اولاد) کا لحاظ کر رھے ھیں مگر اب ھم یہ لڑکی بہ زور شمشیر لے کر جائیں گے ۔
مبارک سوری بھی طیش میں آیااور کہا یہ تو باندی ھے میں اللہ داد کی لڑکی کو بھی اسی طرح اغواء کر کے لاؤں گا اور تم لوگ اس لڑکی کو بھول جاؤ اور اپنی خیر مناؤ یہ کہہ کر اس نے اپنے محافظوں کو اشارہ کیا کہ وفد کو مار ڈالو ۔
قاعدے کے مطابق سنبل اپنے ہتھیار باہر چھوڑ آئے تھے اور نہتے تھے مگر جیسے ھی ان پر حملہ ھوا سنبلوں نے مبارک سوری کے محافظوں کے تلوار چھین لئے اور مبارک سوری کو بمع شاہی محافظوں کے قتل کردیا اور اپنی لڑکی کو ساتھ لے گئے ۔
جب شیرشاہ سوری تک یہ خبر پہنچی تو اس نے ہیبت خان نیازی کو لکھا کہ سور قبیلے کی تعداد بہت تھوڑی ھے اگر اس طرح سور قبیلے کے لوگ قتل ھوتے رھے تو سور قبیلہ کا ایک فرد بھی باقی نہیں رھے گا لہذہ نیازی جو آپ کے اپنے قبیلے کے لوگ ھیں ان میں ذمہ داروں کا تعین کرکے سزا دو تاکہ کوئی اور پٹھان قبیلہ اپنے حاکم کو اس طرح قتل کرنے کی جرآت نہ کرے ۔
سنبل اس واقعہ کے بعد فیملیز سمیت پہاڑوں میں رپوش ھو گئے تھے اور ہیبت خان کی پہنچ سے باھر تھے۔
ہیبت خان نے دھوکہ سے انہیں بلوانے کا منصوبہ بنایا
روپوش سنبلوں کو پیغام بھیجوایا کہ وہ سنبل اور شیرشاہ سوری کے درمیان مفاہمت کرانے اور شیر شاہ سوری سے معافی دلوانے کی ذمہ داری لیتے ھیں لہذہ پہاڑوں سے اتر کر واپس اپنے گھروں میں آجائیں ۔
سنبلوں نے انہیں اپنا سمجھ کر اس کی بات کا اعتبار کیا اور پہاڑوں سے اتر کر اس کے سامنے پیش ھوئے
ہیبت خان نے اپنی گورنری بچانے اور شیر شاہ سوری کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے بھیرہ کے مقام پر 900 سنبل نوجوانوں کو تہہ تیغ کیا اور ان کی عورتوں کو شیرشاہ سوری کی خدمت میں بھیج دیا ۔
شیر شاہ نے اس حرکت پر سخت ناراضگی ظاھر کی اور کہا کہ قبائل میں آج تک کسی نے ایسی ذلیل حرکت نہیں کی ۔
جو بندہ اپنوں کا نہیں وہ میرا وفادار کیسے ھو سکتا ھے شاید ہیبت خان بادشاہ بننے کے خواب دیکھ رھا ھے اگر وہ بادشاہ بھی بننا چاھتا ھے تو تب بھی وہ اپنی پشتو کا لحاظ رکھتا اور اپنے ہی لوگوں کا اتنے بڑے پیمانے پرخون ناحق نہ بہاتا ۔
شیرشاہ سوری اسے گورنری سے ھٹانے ہی والا تھا مگر موت نے اسے مہلت نہ دی اور وہ 1545ء میں دار فانی سے کوچ کر گیا۔
شیر شاہ کے بعد اقتدار کی رسہ کشی شروع ھوئی اس کا بیٹا اسلام شاہ برسر اقتدار آیا چونکہ نیازی ان کے جانشینی کے خلاف تھےاس لئے اقتدار سنبھالتے ھی اسلام شاہ ہاتھ دھوکر نیازیوں کے پیچھے پڑگیا۔
اسلام شاہ سوری کے ھاتھوں نیازی قوم کی تباہی ھوئی اور ان کی طاقت ختم ھو کر رہ گئی۔ اسلام شاہ سوری کے دور حکومت میں ان کے باجگذار کشمیر ی راجہ نے ان کے حکم پر ہیبت خان نیازی کو دھوکے سے اپنے پاس بلوایا اور انہیں پورے خاندان سمیت موت کے گھاٹ اتارا ان کے سر اسلام شاہ کو بھیجوائے اور یوں یہ کردار اپنے منطقی انجام کو پہنچا۔
اشفاق احمد کہتے ھیں ۔
دھوکےمیں بڑی جان ھوتی ھے یہ کبھی نہیں مرتا ،
گھوم کر ایک دن واپس آپ کے پاس ہی پہنچ جاتا ھے
کیونکہ اس کو اپنے ٹھکانے سے بہت محبت ھوتی ھے ۔
(بحوالہ The Pathan مولف ۔ سر اولف کیرو )
تحریر: عطاء اللہ خان نیازی سلطان خیل